خالد نام، ابوسعید کنیت۔ سیدنا خالدؓ ان خوش نصیب بزرگوں میں ہیں جو اس وقت مشرف باسلام ہوئے، جب چند بندگانِ خدا کے سوا ساری دنیا توحید کی آواز سے نا آشنا تھی، ان ہی کے اسلام سے ان کے گھر میں اسلام کی روشنی پھیلی۔ ان کے اسلام کا واقعہ یہ ہے کہ دعوت اسلام کے ابتدائی زمانے میں انہوں نے خواب دیکھا کہ یہ ایک آتشیں غار کے کنارے کھڑے ہیں اور ان کے والد ان کو اس میں دھکیل رہے ہیں اور رسولؐ گلا پکڑے ہوئے روک رہے ہیں، اس خواب پریشان نے آنکھ کھول دی، گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور بے ساختہ زبان سے نکل گیا کہ خدا کی قسم! یہ خواب حقیقت ہے اور اس کو سیدنا ابوبکرؓ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ تم ایک نہ ایک دن ضرور مشرف باسلام ہو گے۔ اس لیے میں تم کو دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم فوراً حلقہ بگوش اسلام ہو جاؤ اور تمہارے والد اس آتشیں غار میں گریں گے، لیکن تم کو اسلام اس میں گرنے سے بچالے گا۔ چنانچہ خالدؓ نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: بلا شرکت غیر خدائے واحد کی پرستش کرو، مجھ کو اس کا بندہ اور رسول مانو اور ان پتھروں کی پوجا چھوڑ دو جو تمہارے نفع اور نقصان کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے، حتی کہ اس سے بھی لاعلم ہیں کہ ان کی پرستش کے دعوے داروں میں کون ان کی پرستش کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ یہ تعلیمات سن کر، دل کے ساتھ زبان نے بھی، خدا کی وحدانیت اور آپؐ کی رسالت کی تصدیق کر دی۔ (مستدرک حاکم)
آزمائش اور استقامت
اسلام لانے کے بعد گھر والوں سے چھپ کر آپؐ کے ساتھ دعوت اسلام میں مصروف ہو گئے، والد کو خبر ہوئی تو انہوں نے ان کے بھائیوں کو پکڑنے کے لیے بھیجا، وہ ان کو گرفتار کر کے لے گئے۔ پہلے اسلام چھوڑنے کا مطالبہ ہوا، یہاں جواب صاف تھا کہ جان جائے لیکن محمدؐ کا مذہب نہیں چھوٹ سکتا۔ اس جواب پر پہلے زجر و تو بیخ شروع ہوئی، جب یہ بے اثر ثابت ہوئی تو زدو کوب کی نوبت آئی اور اس بے دردی سے مارے گئے کہ سر پر پڑتے پڑتے لکڑی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ جب مارتے مارتے تھک گئے تو پھر باز پرس شروع ہوئی کہ تم نے محمدؐ کی حرکتوں کو جانتے ہوئے ان کا ساتھ کیوں دیا؟ تم آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ وہ پوری قوم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے معبودوں اور ان کے آباو اجداد کو برا بھلا کہتے ہیں اور اس میں تم بھی ان کی ہمنوائی کرتے ہو، مگر اس مار کے بعد بھی اس بادۂ حق کے سرشار کی زبان سے نکلا کہ ’’خدا کی قسم! وہ جو کچھ کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور اس میں، میں ان کے ساتھ ہوں‘‘۔ جب سنگ دل باپ ہر طرح سے تھک چکا تو عاجز ہو کر قید کر کے، کھانا پینا بند کر دیا اور لوگوں کو منع کر دیا کہ کوئی شخص ان سے گفتگو نہ کرئے۔ یہ تین دن تک بے آب و دانہ تنہائی کی قید جھیلتے رہے، چوتھے دن موقع پا کر بھاگ نکلے اور اطراف مکہ میں روپوش ہو گئے۔ (طبقات ابن سعد)
ہجرت حبشہ
جب مسلمانوں کا دوسرا قافلہ حبشہ جانے لگا تو یہ بھی اپنی بیوی امیمہ یا امینہ اور بھائی عمرو کو ساتھ لے کر حبشہ چلے گئے، یہیں ان کے صاحبزادے سعید اور صاحبزادی ام خالد پیدا ہوئیں۔ (اسد الغابہ)
ہجرت مدینہ اور غزوات
غزوہ خیبر کے زمانے میں حبشہ سے مدینہ آئے گو یہ اس میں شریک نہیں ہوئے تھے، لیکن آپؐ نے مال غنیمت میں ان کا حصہ بھی لگایا، اس کے بعد عمرۃ القضا، فتح مکہ، حنین، طائف اور تبوک وغیرہ سب میں آپؐ کے ہم رکاب رہے۔ (استیعاب)
ابتدائی غزوات بدر واحد وغیرہ میں شریک نہیں ہو سکے تھے، اس محرومی پر ہمیشہ متاسف رہے۔ آپؐ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ بدر کے شرف سے محروم رہے۔ آپؐ نے جواب دیا کہ کیا تم کو یہ پسند نہیں ہے کہ لوگوں کو ایک ہجرت کا شرف حاصل ہو اور تم کو دو کا؟ (ابن سعد)
مدینہ کا قیام
مدینہ آنے کے بعد سے آپؐ نے مراسلات کا عہدہ ان کے متعلق کر دیا تھا اور وہ تحریری نامہ و پیام کی خدمت انجام دیتے تھے، 9ھ میں بنو ثقیف کا جو وفد آیا تھا، اس کے اور آپؐ کے درمیان گفتگو کی خدمت ان ہی نے انجام دی تھی، اور وفد کے مشرف باسلام ہونے کے بعد معاہدہ بھی ان ہی نے تحریر کیا تھا۔ (زرقانی)یمن کی گورنری
سیدنا خالدؓ کے کنبہ بھر میں حکومت کی صلاحیت تھی، اس لیے آپؐ نے تینوں بھائیوں کو حکومت کے عہدوں پر ممتاز کیا تھا، ابان کو بحرین پر، عمرو کو تیماء پر اور خالدؓ کو یمن پر مامور کیا، یہ تینوں تاحیات نبوی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپؐ کی وفات کی خبر سن کر وہاں سے واپس ہوئے، سیدنا ابو بکرؓ نے دوبارہ بھیجنا چاہا اور فرمایا کہ تم لوگ آپؐ کے مقرر کردہ عامل ہو، تم سے زیادہ کون اس عہدہ کا مستحق ہو سکتا ہے؟ لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کہا ہم ابی احیحہ کی اولاد ہیں، آپؐ کے بعد کسی کے عامل نہ بنیں گے۔ (استیعاب)
شہادت
فحل کی مہم کے بعد اسلامی فوج نے مرج صفر کا رخ کیا، اسی درمیان میں خالدؓ نے ام حکیم سے عقد کر لیا اور مرج صفر پہنچ کر بیوی سے ملنے کا قصد کیا، بیوی نے کہا اس معرکے کے بعد اطمینان سے ملنا زیادہ بہتر ہے۔ انہوں نے جواب دیا میرا دل کہتا ہے کہ اس لڑائی میں جام شہادت پیوں گا، غرض مرج صفر ہی میں بیوی سے ملاقات کی اور صبح کو احباب کی دعوت کی، ابھی لوگ کھانے سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ رومی میدان میں آگئے، ایک رومی نے مبارز طلبی کی، خالدؓ مقابلے کے لیے نکلے اور نکلتے ہی شہید ہوگئے۔ ان کی عروس (دلہن) کا یہ سبق آموز واقعہ قابل ذکر ہے کہ جزع فزع اور سوگ نشینی کے بجائے شوہر کے خون کے انتقام کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور مردوں کے دوش بدوش لڑ کر سات رومیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ (فتوح البلدان بلاذری)
241206-06-5
اسلام کی برکتمناظر احسن گیلانیؒ
فاقہ کش‘ غریب اور مفلس عرب جو اپنے ملک کے خاص حالات کے لحاظ سے ایام جاہلیت میں معاشی حیثیت سے انتہائی سخت کوشیوں کا شکار بنا ہوا تھا‘ تعیش و رفاہیت کی زندگی کا تو کیا ذکر ہے‘ ضروری معاشی رسد کی تکمیل میں بھی ان کو آسمان و زمین کے قلابے ملانے پڑتے تھے۔ ساری عمر عرب کے چٹیل ریگستانی اور سنگستانی صحرائوں میں بے چارے صرف اس لیے دوڑتے پھرتے تھے کہ دو وقت کی خشک روٹی خواہ کسی شکل میں ہو‘ مل جائے اور وہ بھی بہ مشکل میسر آتی تھی‘ لیکن اسلام نے ایک طرف ان کے باطنی قویٰ اور ذہنی طلب میں یہ طوفان برپا کیا‘ دوسری طرف 15‘ 20 سال کی مدت میں جسمانی اور معاشی مطالبوں کے لیے رسد کا ایک ایسا بے تھاہ سمندر ان کے اس غیرآباد‘ قلیل التعداد ملک میں ٹھاٹھیں مارنے لگا کہ سچ یہ ہے کہ اس کی نظیر بھی عرب کے آسمانوں نے نہ اس سے پہلے دیکھی تھی‘ اور نہ آج تک پھر وہ تماشا دیکھنا اسے نصیب ہوا۔ اْن خزائن اور دفائن‘ غنائم اور نفل کے سوا جو قرنہا قرن سے کسریٰ ایران کے خزانے میں جمع ہو رہے تھے‘ یا وہ دولت جو زمینِ فرعون (مصر) سے یا ارض شام سے آئی تھی‘ ستون فی ستین (یعنی 60 گز لمبا‘ 60 گز چوڑا) والا جواہر نگار بہار نامی ایرانی غالیچہ جس کے تمام نقش و نگار‘ جن کا تعلق مختلف مناظر اور موسموں سے تھا‘ انمول جواہرات کے ذریعے سے کاڑھے گئے تھے‘ کسریٰ کا وہ مرصع تاج جو اپنے قیمتی اور وزنی پتھروں کی وجہ سے بجائے سر پر رکھنے کے سونے کی زنجیر سے لٹکا دیا جاتا تھا اور کج کلاہ ایران اسی میں اپنا سر داخل کر دیتا تھا‘ کھجوروں کے تنے پر مدینہ میں جو مسجد کھڑی تھی اس میں یکے بعد دیگرے یہ سب کچھ ہر طرف سے چلا آ رہا تھا۔
خوراکی رسد کا یہ حال تھا کہ عام رمادہ کے قحط میں سیدنا عمرؓ نے مصر کے والی عمرو بن عاصؓ کو غلے کے لیے جب لکھا تو انھوں نے جواب دیا کہ اونٹوں کی ایسی قطار غلے سے لاد کر پایۂ تحتِ خلافت میں بھیجتا ہوں جس کا پہلا اونٹ مدینہ میں ہوگا اور آخری اونٹ کی دْم میرے ہاتھ میں ہوگی۔
ذہبی نے لکھا ہے کہ عہد فاروقی تک پہنچتے پہنچتے مدینہ کے بازار کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ عہد نبوتؐ میں جس گدھے کی قیمت 15 درہم تھی‘ اب وہ 15 سو میں ملتا تھا۔ بخاری کی مشہور روایت ہے کہ سیدنا زبیرؓ نے غابہ کی زمین جو مدینہ کے پاس ہے کل ایک لاکھ 70 ہزار درہم میں مول لی تھی‘ لیکن ان کے بیٹے سیدنا عبداللہؓ نے اسے جب فروخت فرمایا تو اس کی قیمت 16 لاکھ ملی تھی۔ زبیرؓ کی جایداد کی قیمت جیسا کہ بخاری میں ہے 50 کروڑ 2 لاکھ لگائی گئی تھی… صحابہ اور صحابہ کی اولاد جو وہی عرب تھے جن کے پاس ہزار کے اوپر عدد کے لیے کوئی لفظ ہی نہ تھا‘ لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ایک ایک وقت میں صرف خیرات کرتی تھی‘ یا اپنے ملنے جلنے والے احباب و اعزہ کو دے ڈالتی تھی۔ (’’تدوین حدیث‘‘، ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جون‘ جولائی‘ اگست 1941ء‘ ص 152)