انسان کو جو خاص فضیلتیں حاصل ہیں، ان میں سے ایک بیان (اظہارِ خیال) کی صلاحیت بھی ہے۔ سورۂ رحمن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا‘‘۔ (آیت: 3۔4) سورۂ بلد (آیت 9) میں زبان اور دو ہونٹوں کو اللہ کے عطیے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ’’کیا (ہم نے انسان کو) ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟‘‘ تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’زبان اور ہونٹوں سے مراد محض بولنے کے آلات نہیں ہیں بلکہ نفس ناطقہ ہے جو ان آلات کی پشت پر سوچنے سمجھنے کا کام کرتا ہے اور پھر ان سے اظہار مافی الضمیر کا کام لیتا ہے‘‘۔
انسانی زندگی میں گفتگو اور بات چیت کی بڑی اہمیت ہے۔ انسان کو شب و روز دوسرے انسانوں سے تبادلۂ خیال کا موقع ملتا رہتا ہے۔ قرآن و حدیث میں گفتگو کے اصول و آداب سکھا دیے گئے ہیں۔ زبان کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال فرد کو جنت کا حقدار بنادیتا ہے جب کہ اس کے غلط استعمال سے جہنم کا مستحق قرار پاسکتا ہے۔ انسان کے قول و فعل کو کراماً کاتبین کے ذریعے محفوظ کیا جارہا ہے۔سورۂ ق (آیت: 18) میں کہا گیا: ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو‘‘۔ نبی اکرمؐ نے یہ اصول سمجھا دیاہے کہ’’جو کوئی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ یا تو بھلی بات کہے یا پھر خاموش رہے‘‘۔ (بخاری)
قرآن مجید میں زبان کے استعمال کے حوالے سے متنوع اصول بیان ہوئے ہیں۔ مختلف مواقع کے لیے مختلف لہجے اور اسلوب سکھائے گئے ہیں۔ درست لہجوں کی بھی وضاحت کی گئی ہے اور بعض ناپسندیدہ طریقوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس مضمون میں موضوع کے صرف تربیتی پہلوؤں کا حاطہ کیا جارہا ہے۔
قول معروف ( اچھی بات)
’’قولِ معروف‘‘ کا ذکر قرآن مجید کی ان چھ آیات میں ہوا ہے۔ (البقرہ: 235، 263، النساء: 5، 8، الاحزاب: 32، محمد: 21)۔ مثلاً سورۂ نساء کی آیت نمبر 5 کے آخرمیں کہا گیا: ’’اور ان سے معروف طریقے سے بات کرو‘‘۔ ’’معروف‘‘ عْرف سے بنا ہے جس کے معنی جاننے اور پہچاننے کے ہیں۔ معروف جانی پہچانی چیز کو کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں نیکی اور بھلائی کو معروف کہا گیا ہے، اس لیے کہ نیکی یا بھلائی انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ قولِ معروف سے مراد اچھی بات ہے۔ ایسی بات جو درست ہو، معقول ہو، جسے انسانی ضمیرصحیح سمجھتا ہو، اور ایسی گفتگو جو نیک ہو۔ جن مواقع پر جھنجھلاہٹ پیدا ہونے یا ناگواری کا احساس پیدا ہونے کا امکان ہو، ان مواقع پر حلم و بردباری کے ساتھ اچھے طریقے سے بات بتا دینے کو بھی قولِ معروف کہا گیا ہے۔ وراثت کی تقسیم کے وقت اگر کچھ رشتے دار، غرباء مساکین و یتیم آجائیں تو انھیں جھڑکا نہ جائے، بلکہ اچھے انداز سے ان سے بات کی جائے۔ ان آیات میں ایک مقام (البقرہ: 263) پر معروف کے ساتھ مغفرت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں انفاق کرنے کے بعد احسان جتانے کو معیوب قرار دیا گیا ہے اور دلداری کی بات اور درگزر یا معذرت کی بات کو اس سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ احسان جتانا دلآزاری ہے جب کہ انفاق کا تقاضا دلداری ہے۔ سورۂ احزاب (آیت 32) میں امہات المؤمنین کو دی گئی ہدایات کی روشنی میں معروف سے مراد ضرورت کی بات چیت ہے جس میں نہ نزاکت ہو اور نہ تلخی۔ سورۂ نساء ( آیت 5) میں وارد ’’قولِ معروف‘‘ کو ’’نیک ہدایت کرنے‘‘ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ سورۂ محمد (آیت: 21) میں وارد ’’قولِ معروف‘‘ کو ’’سمع و طاعت کا قول‘‘ مراد لیا گیا ہے جسے سورۂ نور (آیت: 51) میں قولِ مومنین بھی کہا گیا ہے۔
خلاصہ: قولِ معروف کی درج بالا تشریح کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم زبان کا محتاط استعمال کریں۔ گفتگو کا اسلوب و لہجہ شائستہ وباوقار ہو۔ کسی کی دلآزاری نہ ہو۔ گفتگو ضرورت سے کم ہو اور نہ ضرورت سے زیادہ ہو۔ ہماری گفتگو حلم و بردباری کی آئینہ دار ہو۔ کسی کی نصیحت مقصود ہو تو اس کی تحقیر نہ ہو۔ اگر کسی وقت کسی سے گفتگو مناسب محسوس نہ ہو تو سلام کے ساتھ معذرت کر لی جائے۔ ناگوار مواقع پر ضبطِ نفس کے ساتھ ضبط کلام کا بھی مظاہرہ ہو۔