افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

313

اسلامی نظام کی سند
اسلامی نظام میں اللہ کا حکم اور رسول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند (authority Final) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلے میں بھی نزاع واقع ہوگا اس میں فیصلے کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہو گا اس کے سامنے سب سرِ تسلیم خم کر دیں گے۔ اس طرح تمام مسائلِ زندگی میں کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کو سند اور مرجع اور حرفِ آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصوصیت ہے جو اسے کافرانہ نظامِ زندگی سے ممیز کرتی ہے۔ جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظام ہے۔
اس موقع پر بعض لوگ یہ شبہہ پیش کرتے ہیں کہ تمام مسائلِ زندگی کے فیصلے کے لیے کتابْ اللہ و سنتِ رسولْ اللہ کی طرف کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے جب کہ میونسپلٹی اور ریلوے اور ڈاک خانے کے قواعد و ضوابط اور ایسے ہی بے شمار معاملات کے احکام سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ شبہہ اصولِ دین کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان کو جو چیز کافر سے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کافر مطلق آزادی کا مدعی ہے اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف اْس دائرے میں آزادی سے متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اْسے دی ہے۔ کافر اپنے سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اْصول و قوانین اور ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند سمجھتا ہی نہیں۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ہر معاملے میں سب سے پہلے خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف رجوع کرتا ہے، پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے اور اگر کوئی حکم نہ ملے تو وہ صرف اسی صورت میں آزادی عمل برتا ہے اور اْس کی یہ آزا دی عمل اس حجّت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملے میں شارع کا کوئی حکم نہ دینا اس کی طرف سے آزادی عمل عطا کیے جانے کی دلیل ہے۔
(تفہیم القرآن، سورۃ النساء، آیت 59، حاشیہ 89)
٭…٭…٭

رسالت کی اصل غرض
سب سے پہلے ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کیجیے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول دنیا میں کس غرض کے لیے بھیجے ہیں۔ دنیا میں آخر کس چیز کی کمی تھی، کیا خرابی پائی جاتی تھی، جسے رفع کرنے کے لیے انبیا کو مبعوث کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ کیا وہ یہ تھی کہ لوگ ڈاڑھیاں نہ رکھتے تھے اور انھیں رکھوانے کے لیے رسول بھیجے گئے، یا یہ کہ لوگ ٹمخنے ڈھانکے رہتے تھے اور انبیا کے ذریعے سے انھیں کھلوانا مقصود تھا؟ دو چند سنتیں جن کے اہتمام کا آپ لوگوں میں بہت چرچا ہے، دنیا میں جاری نہ تھیں اور انہی کو جاری کرنے کے لیے انبیا کی ضرورت تھی؟ ان سوالات پر آپ غور کریں گے تو خود ہی کہہ دیں گے کہ نہ اصل خرابیاں یہ تھیں اور نہ انبیا کی بعثت کا اصل مقصد یہ تھا۔ پھر سوال یہ ہے کہ وہ اصل خرابیاں کیا تھیں جنہیں دور کرنا مطلوب تھا اور وہ حقیقی بھلائیاں کیا تھیں جنھیں قائم کرنے کی ضرورت تھی؟ اس کا جواب آپ اس کے سوا اور کیا دے سکتے ہیں کہ خدا کی اطاعت و بندگی سے انحراف، خود ساختہ اصول و قوانین کی پیروی اور خدا کے سامنے ذمے داری و جواب دہی کا عدم احساس، وہ اصل خرابیاں تھیں جو دنیا میں رونما ہو گئی تھیں۔ انھی کی بدولت اخلاق فاسدہ پیدا ہوئے، غلط اصولِ زندگی رائج ہوئے اور زمین میں فساد برپا ہوا۔ پھر انبیا علیہم السلام اس غرض کے لیے بھیجے گئے کہ انسانوں میں خدا کی بندگی و وفاداری اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا کیا جائے، اخلاقِ فاضلہ کو نشو ونما دیا جائے اور انسانی زندگی کا نظام ان اصولوں پر قائم کیا جائے جن سے خیر وصلاح ابھرے اور شر وفساد دبے۔ یہی ایک مقصد تمام انبیا کی بعثت کا تھا اور آخر کار اسی ایک مقصد کے لیے محمدؐ مبعوث ہوئے۔ (روداد جماعت اسلامی، حصہ سوم، ص 250)