قرآنی رجال کے خدوخال

248

تقوی خدا سے بے پناہ محبت میں زندگی گزارنے کا نام ہے
رجُل کا معروف معنی تو عورت کے مقابل مرد ہے۔ لیکن یہ کبھی کچھ اعلی صفات کی حامل شخصیت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی رجال کا معنی واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’رجال کا لفظ یوں تو اپنے عام مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن عربیت کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس سے بالعموم نمایاں اور ممتاز اشخاص مراد ہوتے ہیں۔ مثلًا: ’’ایسے رجال جن کو تجارت اور خرید و فروخت یاد الہی سے غافل نہیں کرتی‘‘۔ (النور: 37)، ’’اور اہل ایمان میں سے رجال ہیں جنہوں نے اس عہد کو سچ کر دکھایا جو خدا سے انہوں نے باندھا‘‘۔ (تدبر قرآن، سورہ اعراف: 46)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:’’لفظ رجال اس طرح استعمال ہوتا ہے تو وہ تضخیم شان پر دلیل ہوتا ہے، اس وجہ سے اگر اس کا ترجمہ مردان حق یا مردان کار، کیا جائے تو یہ ترجمہ لفظ کی روح کے مطابق ہوگا‘‘۔ (تدبر قرآن: سورہ الاحزاب: 23)

رجال اپنے عظیم مفہوم میں جس طرح محض جنس پر دلالت نہیں کرتا اسی طرح اس کا اطلاق کسی خاص عمر کا پابند بھی نہیں ہوتا۔ کوئی کم سن یا عمر رسیدہ شخص رجال سے مراد ہوسکتا ہے اور کوئی جوان اپنی کم ہمتی اور بے مروتی کی بنا پر اس لفظ کے لیے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ رجل اور رِجال کا تعلق اس احساس، شعور، جذبے اور مشن سے ہے جسے اس نے اپنی زندگی کے لیے اپنایا ہے۔ اس کے استعمالات یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ صرف شجاعت و بہادری کا نام نہیں ہے اور نہ ہی صرف کچھ اچھے اور نیک کام کر لینے کا نام ہے بلکہ اس میں وہ تمام خوبیاں شامل ہوگئی ہیں جو اللہ تعالی کو ایک بندہ مومن سے مطلوب ہیں۔ زندگی میں خدا کے ساتھ کیے گئے عہد کی تکمیل قرآن کے رجل اور رجال کی اصل روح ہے۔

عہدِ وفا کے پکے لوگ
’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو اْن کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کر لے، بے شک اللہ غفور و رحیم ہے‘‘۔ (الاحزاب: 23۔24)
قرآن مجید میں مومنوں کی ایک اہم صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عہد کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہی مومنوں کی شان ہوتی ہے۔ اور اسی شان کے ساتھ وہ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ زندگی میں ہر طرح کی آزمائش پر صبر واستقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور حکمت کے ساتھ ان آزمائش کا مقابلہ کرنے کی تدبیر کرتے ہیں۔ اسی راہ میں جام شہادت بھی پی لیتے ہیں لیکن اپنے ایمان کا سودا نہیں کرتے۔ اصل میں یہی وہ راستہ ہے جس سے اہل ایمان گزرتے ہیں اور اسی راستے سے ان کا امتحان ہوتا ہے۔ مردان حق کی ایک صفت یہی بتائی گئی ہے کہ وہ خدا سے عہد کرنے کے بعد اس کو سچا کر دکھا دیتے ہیں۔

قرآنی رجال کے شب و روز
’’(اْس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) اْن گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے۔ اْن میں ایسے لوگ صبح و شام اْس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی وہ اْس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آ جائے گی۔ (اور وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں) تاکہ اللہ ان کے بہترین اعمال کی جزا اْن کو دے اور مزید اپنے فضل سے نوازے، اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے‘‘۔ (النور: 36۔38)
درج بالا آیتوں میں رجال کا ذکر کرکے ان کی خاص صفتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا اللہ سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اللہ کا ذکر ان کی زندگی کا سب سے بڑا عنوان ہوتا ہے۔ اللہ سے تعلق انھیں اللہ کے گھر سے وابستہ رکھتا ہے۔ وہ اللہ کے تصور میں ڈوبے اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ وہ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہوئے اساس دین کی تعمیر میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کی دین داری ان کے اندر غرور پیدا نہیں کرتی ہے اور وہ اپنے انجام کی فکر میں ڈوبے رہتے ہیں۔

قرآنی رجال تزکیہ کی منزلیں طے کرتے ہیں
’’تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عباد ت کے لیے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں‘‘۔ (التوبۃ۔108)
تقوی مومنین کی اہم خوبی ہے، اعمال اور عبادتوں کا ایک اہم مقصد قرآن مجید میں یہ بتایا گیا ہے کہ تم تقوی کی روش اختیار کروں۔ تقوی خدا سے بے پناہ محبت میں زندگی گزارنے کا نام ہے۔ جب ایک بندہ خدا سے بے پناہ محبت کرتا ہے تو اس کے تمام احکام کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتا ہے اور انہی احکام کے سائے میں اپنی زندگی گزارتا ہے۔ مذکورہ آیت میں مادی اور معنوی طور پر طہارت کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے پہلے والی آیت میں اس مسجد کا ذکر کیا گیا ہے جس کی بنیاد ہی نقصان، کفر، اہل ایمان کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور خدا سے بغاوت کرنے کے لیے ڈالی گئی ہو۔ لیکن جس مسجد کی بنیاد تقوی پر ہو تو ایسی مسجد بارگاہ الہی میں قابل قبول مسجد ہے۔ وہاں پر مادی اور معنوی دونوں اس کا اصل مقصد تقوی ہے۔ تقوی کے تعلق سے قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر رہنمائی ملتی ہے۔

قرآنی رجال کا شعار نصرتِ دین
قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر لفظ ’’رجل‘‘ کا ذکر ہوا ہے۔ دین کی نصرت کے لیے ہمت و جرات سے کام لینے اور اس راہ میں عظیم الشان قربانی دینے والے افراد کے لیے یہ لفظ آیا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں اور تصور کی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔
ایک رجل عظیم سورہ یس میں نظر آتا ہے: ’’اتنے میں شہر کے دْور دراز گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا ’اے میری قوم کے لوگو، رسولوں کی پیروی اختیار کرلو۔ پیروی کرو اْن لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں۔ آخر کیوں نہ میں اْس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے؟۔ کیا میں اْسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنا لوں؟ حالانکہ اگر خدائے رحمٰن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ اْن کی شفاعت میرے کسی کام آ سکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں۔ اگر میں ایسا کروں تو میں صریح گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا۔ میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا، تم بھی میری بات مان لو‘۔ (آخرکار ان لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور) اس شخص سے کہہ دیا گیا کہ ’’داخل ہو جا جنت میں‘‘ اْس نے کہا: ’’کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے با عزت لوگوں میں داخل فرمایا‘‘۔ (یس: 20۔27)
دوسرا رجل عظیم سورہ قصص میں نظر آتا ہے: ’’اس کے بعد ایک آدمی شہر کے پرلے سِرے سے دَوڑتا ہوا آیا اور بولا: موسیؑ، سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں، یہاں سے نکل جا، میں تیرا خیر خواہ ہوں‘‘۔ (القصص: 20)
ان آیات کے مجموعی مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کے مردان حق صرف اپنی زندگی کی پرواہ نہیں کرتے، وہ اپنی زندگی میں ہی چراغ جلانا نہیں چاہتے بلکہ انھیں اپنی زندگی کے ساتھ دوسروں کی بھی فکر ہوتی ہے۔ دوسروں کو اندھیرے میں دیکھ کر وہ کبھی چین سے نہیں رہتے۔ اس لیے مردان حق کی زندگی دوسروں کے لیے روشنی کا ذریعہ بنتی ہے۔

بلند ترین مقام والے رجال
’’ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس کی بلندیوں (اعراف) پر کچھ بہت خاص لوگ ہوں گے یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ’’سلامتی ہو تم پر‘‘ یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہونگے‘‘۔ (الاعراف: 46)
بلندیوں پر رجال کی وہ کون سی جماعت ہوگی جو مومنوں کو جنت کی بشارت دے رہے ہوگی؟ لفظ اعراف کی معنویت اور سیاق و سباق کی دلالت بتاتی ہے کہ بلندیوں پر مومنوں کی وہ جماعت ہوگی جو ایمان کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہوگی۔ ان میں سرفہرست تو نبیوں کی جماعت ہے، جو انسانیت کے سب سے بڑے محسن ہیں اور امید ہے کہ وہ لوگ بھی ہوں گے جنھوں نے رسولوں کے مشن کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا اور پوری زندگی اس کے لیے وقف کردی۔

امت کا سب سے قیمتی سرمایہ
بلند سوچ اور اونچے کردار کے رجال دین حق کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ دین کی نصرت کے لیے مال واسباب سے کہیں زیادہ اہمیت مردان حق کی ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے رجال کی اہمیت کو بڑے عمدہ طریقے سے واضح فرمایا
سیدنا عمر بن خطابؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’تمنا کرو‘‘۔ ایک شخص نے کہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ یہ گھر چاندی سے بھرا ہو تاکہ میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں‘‘۔ عمرؓ نے کہا: ’’تمنا کرو‘‘۔ دوسرے نے کہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ یہ گھر سونے سے بھرا ہو تاکہ میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں‘‘۔ عمرؓ نے پھر کہا: تمنا کرو۔ ایک اور شخص نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ یہ گھر ہیرے جواہرات یا ان جیسی چیزوں سے بھرا ہو تاکہ میں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں۔ حضرت عمرؓ نے کہا: تمنا کرو۔ انہوں نے کہا: ہم اس کے بعد کیا تمنا کریں؟ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ گھر ابو عبیدہ بن الجراحؓ، معاذ بن جبلؓ اور حذیفہ بن الیمانؓ جیسے رجال سے بھرا ہو، تاکہ میں انہیں اللہ کی اطاعت میں استعمال کروں۔ پھر سیدنا عمرؓ نے حذیفہؓ کے پاس مال بھیجا اور کہا: دیکھو، یہ کیا کرتے ہیں؟ جب سیدنا حذیفہؓ کے پاس مال آیا تو انھوں نے اسے تقسیم کردیا۔ پھر عمرؓ نے سیدنا معاذ بن جبلؓ کے پاس بھی مال بھیجا اور انھوں نے بھی اسے تقسیم کردیا۔ پھر عمرؓ نے سیدنا ابوعبیدہؓ کے پاس بھی مال بھیجا اور کہا: دیکھو، یہ کیا کرتے ہیں؟ انھوں نے بھی وہی کیا۔ تب سیدنا عمرؓ نے فرمایا: دیکھو میں نے تم سے کہا تھا نا۔
اسلامی تحریک میں سب سے زیادہ توجہ افراد سازی پر ہونی چاہیے۔ قرآن مجید نے رجال کے جو اوصاف بیان کیے ہیں افراد سازی کے حوالے سے ان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس پہلو سے قرآن مجید میں رجل اور رجال کے ساتھ مذکور اوصاف کا گہرا مطالعہ ہونا چاہیے۔