اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنمائوں کے خلاف قتل کا مقدمہ گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی احتجاج کے دوران سری نگر ہائی وے پر تیز رفتار گاڑی کی زد میں آکر نیم فوجی دستے کے اہلکاروں کی ہلاکت کے سلسلے میں درج کیا ہے۔ جس میں دفعہ 302 قتل، دفعہ 324 قتل کی کوشش اور دہشت گردی کے الزامات سمیت سیکشن 120 بی مجرمانہ سازش کرنے جیسی متعدد دفعات کو شامل کیا گیا ہے۔ 1974 میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر بھی اس وقت کی حکومت نے قتل کا مقدمہ درج کیا تھا اور اس مقدمہ میں سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان پاکستان کے دوسرے وزیراعظم ہیں جن پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ عمران خان جن پر پہلے ہی مختلف مقدمات درج ہیں اور وہ ان مقدمات پر گزشتہ کئی ماہ سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹر جنرل ضیاء الحق نے چار اپریل 1979 کو پھانسی کی سزا دے دی تھی۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد اس وقت کے حکمرانوں نے شاید یہ سمجھا کہ ہم نے بھٹو سے جان چھڑالی ہے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ بھٹو آج تک زندہ ہے اور بھٹو کا سحر اور جادو آج تک سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ضیاء الحق کے ہاتھوں معزولی کے لگ بھگ آٹھ ماہ بعد 18 مارچ 1978 کو لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی تھی۔ بھٹو کو کراچی میں تین ستمبر کی صبح سابق رکن قومی اسمبلی اور ان کے سابق حامی احمدرضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور آج ایک بار پھر اسلام آباد پولیس کی جانب سے تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران
خان پر قتل کا مقدمہ دائر ہونے سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہے۔ ضیاء الحق بھی بھٹو کی سیاسی حمایت سے خوف زدہ تھے اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے بھٹو کو پاکستان میں عوامی عہدہ حاصل کرنے سے روکنا چاہتے تھے۔ مارشل لا انتظامیہ اور سابق وزیراعظم بھٹو کے درمیان محاذ آرائی نے فیصلہ کن موڑ لیا۔ 18 مارچ 1978 کو صبح آٹھ بج کر بیس منٹ پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مشتاق حسین نے بنچ کے دیگر جج جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس گلباز خان اور جسٹس ایم ایچ قریشی کے ساتھ نواب احمد خان قصوری کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ 410 صفحات کا یہ فیصلہ جج آفتاب حسین نے لکھا اور بنچ کے باقی ارکان نے اس سے اتفاق کیا، سلطانی گواہوں مسعود محمود اور غلام حسین کو معاف کردیا گیا تھا۔
آج پچاس سال کے بعد ایک بار پھر وہی کہانی دھرانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے ملک میں انتشار اور انارکی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ عمران خان جن کے بیانات میں روز بروز شدت آتی جارہی ہے انہوں نے اپنی بہن علیمہ خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’کہ میرے پاس ابھی آخری پتا باقی ہے جو ابھی استعمال نہیں کروں گا۔ ہم اپنا آئینی حق استعمال کررہے ہیں ہمارے کارکنان پر بالکل لال مسجد اور اکبر بگٹی جیسا آپریشن کیا گیا ہے اور پوری بریگیڈ بلا کر ہمارے کارکنان پر حملہ کیا گیا جس سے غصہ بڑھا ہے اور اب بھی یہ غصہ بڑھے گا، 9 مئی کے معاملے پر لوگ شاک میں تھے، پہلے 8 فروری کو لوگوں کا حق چھینا اس پر لوگوں کو غصہ ہے اب ظلم ہوا تو اس پر بھی لوگوں کو شدید غصہ ہے۔ تاریکی میں ہمارے نہتے کارکنان پر گولیاں برسائی گئی اور اب اس سفاکیت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لے کے بحث کا رخ غیر ضروری موضوعات کی جانب موڑے جانے کی کوشیش کی جارہی ہیں‘‘۔ دوسری جانب امریکا کے معروف اخبار واشنگٹن ایگرمیز کے ایک مضمون میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ دیا ہے کہ امریکی حکومت اور سیاست کی بہتری بانی پی ٹی آئی سے دوری میں ہے، بانی پی ٹی آئی اور ان کی سیاست سے تعلق امریکا اور امریکی مفاد کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے، بانی پی ٹی آئی کی سیاست امریکا دشمنی پر مبنی ہے، بانی پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے امریکا مخالف مہم سے عوام میں مقبولیت حاصل کی۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی کی شخصیت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا، طالبان کی حمایت، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اسامہ بن لادن کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی کے نقطہ نظر کو امریکا سپورٹ نہیں کرسکتا، بانی پی ٹی آئی ایک متنازع شخصیت ہیں اور امریکی حکومت کسی نئے تنازع کی متحمل نہیں ہوسکتی، پاکستانی فوج اور امریکا کے تعلقات ہمیشہ خطے میں دیرپا امن کی ضمانت رہے ہیں، بانی پی ٹی آئی کی کسی قسم کی حمایت سے دوطرفہ تعلقات میں رخنے پڑ سکتے ہیں، بانی پی ٹی آئی کی سیاست پاکستان کا اندورنی معاملہ ہے امریکی حکومت کو اس سے دور رہنا چاہیے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی اور بحرانی صورتحال پرحکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ذمے دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ پورا ریاستی نظام کسی بھی وقت لپیٹ دیا جاسکتا ہے ہمیں اپنے ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہیے طاقت اور انتقام کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو کچلنے سے جمہوری نظام کمزور ہوگا جو کہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ ملک کو بحران سے نکالنے کا واحد راستہ سیاسی قوتوں کی اہمیت کو تسلیم کر کے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہے ملک کے داخلی حالات انتہائی ناگفتہ ہیں اور ہم اپنے ماضی سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ پی ڈی اے کی پارٹ ٹو حکومت غیر جمہوری اور آمرانہ طرز پر حکومتی امور چلانا چاہتی ہے جو کہ ملک وقوم کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ملک میں سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر نہ معاشی حالات میں بہتری آئے گی اور نہ ہی دہشت گردی ختم ہوگی ملک سیاسی تقسیم کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہی ہے کہ ایک دوسرے کی طاقت اور قوت کو دل سے تسلیم کیا جائے اور مکالمہ کے ذریعے مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین بھی ہٹ دھرمی کی سیاست سے اجتناب کریں بھٹو صاحب نے بھی قومی اتحاد کے ساتھ مفاہمت کا راستہ آخری دور میں اختیار کیا تھا لیکن اس وقت پل کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ خفیہ قوتوں نے قومی اتحاد اور بھٹو کے درمیان مفاہمت نہیں ہونے دی اور بھٹو کو پھانسی تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ پیپلز پارٹی پر لاکھ پابندیوں اور مشکلات کے باوجود پیپلز پارٹی آج بھی موجود ہے اور بھٹو بھی ہر گھر میں زندہ ہے۔