باب الاسلام صوبہ سندھ میں یکم دسمبر کو یوم ثقافت کی تقریبات تعلیمی اداروں سے لے کر میدانوں تک عید کے تہوار کے طور پر منائی گئی۔ اس تہوار کا آغاز دسمبر 2009ء سے اس وقت شروع ہوا جب ایک معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے دانستہ نا دانستہ ازخود یا کسی کے پلانٹیڈ منصوبے کی آبیاری کی خاطر آصف علی زرداری صدر پاکستان کے بیرون ملک دورے کے موقع پر اُن کی پہنی ہوئی سندھی ٹوپی پر بھپتی کسی اور جو کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں تھی بلکہ یہ شرانگیزی ہی تھی اس کا شدید ردعمل پورے سندھ میں آنا تھا۔ جو اُبھر کر سامنے آیا تو پھر ایک سندھ کے مقبول ترین اخبار اور اُس کے چینل نے سندھی ٹوپی کا دن ہر سال ماہ دسمبر کے پہلے اتوار کو منانے کی مہم شروع کی۔ اس سال کا سلوگن ’’اساں سندھوجا وارث آھیوں‘‘۔ دریائے سندھ سے 6 کینال نکالنے کے فیصلے کی مناسبت سے اس میڈیا گروپ نے سلوگن دیا۔ یوں یوم ثقافت اس فیصلے کے خلاف ایک احتجاج بھی ثابت ہوا اور بچوں سے لے کر بوڑھوں تک نوجوان بچوں اور بچیوں تک نے مظاہروں میں شرکت کی۔ اس میں سیاسی تفریق کو پس پشت رکھ کر شرکت رہی۔ اس دن راگ رنگ کی محفلیں بھی سجائی گئیں۔ سندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر اظہار محبت ان دو سے خوب ہوا۔
سندھ میں کسی دور میں ننگے سر والے مرد کو محلوں میں سے گزرنے کی اجازت نہ تھی مگر جدت نے یہ سر کا تاج جس میں مسجد کا محراب بنا ہوا ہے چھین کر برہنہ کردیا۔ اب یہ اس یوم کے حوالے سے پھر پذیرائی کا حامل ہوگیا۔ کاش یہ ایک دن کے بجائے پوری زندگی سرتاج بنی رہے، لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو، اس دن کو منانے میں حرج کیا ہے مسلکی لوگوں نے بھی تو شان و شوکت کے اظہار کے لیے ایام مقرر کررکھے ہیں، مگر یہ ریت کہ جوان بچیاں ناچیں گائیں اور مخلوط مظاہروں میں شرکت کریں یہ سندھ کی روایت کے برعکس ضرور ہے، اس میں ہر چیز ہونا ہی سندھ کی ثقافت کو برقرار رکھنا ہے جو باب الاسلام ہے۔
یہ رواج جو بڑھ رہا ہے آکاس بیل کی طرح شریعت کے احکامات کو چاٹ رہا ہے۔ سندھ کی ثقافت کے حوالے سے سید امداد محمد شاہ نے سندھی ٹوپی کے بجائے پگڑی بتایا تھا سو اُن کے پیرو کار پگڑی بوسکی کی باندھ کر شریک بزم ہوتے ہیں۔
سندھی ٹوپی پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے سندھ میں قوم پرستی میں جہاں نئی روح پھونک دی اور ٹمٹاتا چراغ شعلہ فگن ہوگیا۔ وہاں پیپلز پارٹی کو حکومتی بارگینگ میں مزید وقت مل گیا اور وہ مقتدرہ کے ڈراوے میں اضافے کی پوزیشن میں آگئی ہے اور یہ بتا سکتی ہے کہ ہم کو محروم اقتدار کیا تو صوبہ سندھ سے ملک کی محرومی کا سوال اُٹھ کھڑا ہوگا۔ مقتدر حلقوں میں کہتے ہیں کہ یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ قوم پرست ہی پی پی کی مقبولیت کی کاٹ ہیں سو اُن کو ایک دائرہ میں رکھ کر کھلی آزادی ہے کہ جو چاہیں کریں، پی پی پی حکومت بھی خوب سمجھتی ہے کہ چال کیا ہے سو اُس نے بھی صوبہ سندھ کی ثقافت جو اس کی بھی ہے محکمہ ثقافت کی گود میں دے کر یہ ثابت کیا کہ وہ بھی اس نظریہ پر کامل یقین رکھتی ہے اور ہم سب ایک ہیں۔ یوم ثقافت کی پزیرائی کا عالم یہ ہے کہ ہجرت کرکے آنے والے گھرانے کے افراد بھی یکجہتی خاطر یہ دن خوب مناتے ہیں سو خوب منایا گیا۔ پس ربّ سے یہ دعا ہے کہ شر میں سے خیر نکالے اور بُری چال کو چلنے والوں پر الٹ دے اور صوبہ سندھ امن وامان کا گہوار رہے اور کسی بھی لسانی، مسلکی، علاقائی شورش کا شکار نہ ہو۔ سندھ بانی پاکستان ہے یہ اس کے بنیاد کی مضبوط اینٹ ہے۔ اللہ کرے ملک اور صوبہ دونوں اغیار کی آندھی سے محفوظ رہیں۔