کیا کینیڈا نے امیگریشن روک دی؟

268

آج کل انٹرنیٹ پر ایک گمراہ کن خبر چل رہی ہے، بلکہ وائرل ہوئی پڑی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ بات زور دے کر کہی جارہی ہے کہ کینیڈا کی حکومت نے تین یا پانچ سال کے لیے امیگریشن پر مکمل پابندی عائد کردی ہے یعنی یہ کہ تارکینِ وطن کو بالکل قبول نہیں کیا جارہا۔

یہ محض گمراہ کن بات ہے، پروپیگنڈا ہے۔ کینیڈا کی حکومت نے امیگریشن بند کی ہے نہ اِس پر پابندی ہی عائد کی ہے۔ معاملہ صرف یہ ہے کہ کینیڈا کی حکومت تارکینِ وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ’’مینیج‘‘ کرنا چاہتی ہے۔ کینیڈا میں عارضی یا مستقل رہائش اختیار کرنے کے خواہش مند افراد کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جو لوگ وہاں عارضی ویزے پر ہیں وہ بھی چاہتے ہیں کہ مستقل قیام کا پروانہ مل جائے۔

کینیڈا کی حکومت چاہتی ہے کہ مستقل قیام کے خواہش مند تارکینِ وطن کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی کے مقابلے میں اِتنی نہ بڑھے کہ معاملات ہاتھ سے نکل جائیں۔ ایک طرف مہنگائی بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف بے روزگاری کا گراف بھی بلند ہو رہا ہے۔ کینیڈا کے چھوٹے اور بڑے تمام ہی شہروں میں رہائش مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ بڑے شہروں میں کرائے پر مکان یا اپارٹمنٹ لینا خواب کا معاملہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں حکومت کا پریشان ہونا فطری امر ہے۔

اشیائے خور و نوش تمام ہی اہم اشیا و خدمات کی قیمت بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں معیارِ زندگی متاثر ہو رہا ہے۔ ایسے میں یہ بات معقول لگتی ہے کہ کینیڈین حکومت تارکینِ وطن کی تعداد کنٹرول کرنے کے حوالے سے سوچے اور اقدامات کرے۔

کینیڈا کی حکومت نے طے کیا تھا کہ 2025 میں مستقل تارکینِ وطن کی تعداد زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ رہے۔ اب طے کیا گیا ہے کہ 2025 اور 2026 میں یہ تعداد بالترتیب 3 لاکھ 95 ہزار اور 3 لاکھ 80 ہزار رکھی جائے گی۔

کینیڈا کی حکومت تارکینِ وطن میں توازن بھی پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اس وقت کینیڈا میں بھارتی طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بنیادی قابلیت نہ رکھنے والوں کو بھی کینیڈا کی جامعات میں اس لیے داخلہ مل جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ فیس وصول کرنی ہے۔ تعلیمی اداروں کی یہ پالیسی اب حکومت کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے۔ کینڈا کی بڑی جامعات میں ایک ہی ملک کے طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہو جانے سے تعلیمی ماحول خراب ہو رہا ہے اور اساتذہ بھی کام پر توجہ نہیں دے پارہے۔