سندھ رینجرز کے زیر استعمال میٹھا رام ہاسٹل کی حیثیت سے متعلق محکمہ اوقاف سے رپورٹ طلب

87


کراچی ( اسٹاف ر پورٹر)سندھ ہائیکورٹ میں لاپتا شہری کامران کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت ،عدالت نے لاپتا شہری کے اہلخانہ کو مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے محکمہ داخلہ سندھ سے رپورٹ طلب کرلی۔سندھ ہائیکورٹ میں لاپتا شہری کامران کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی جہاںعدالت نے محکمہ اوقاف سندھ سے پاکستان رینجرز سندھ کے زیر استعمال میٹھا رام ہاسٹل کی
ملکیت سے اور حیثیت سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے فریقین کو 19 دسمبر کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔ تفتیشی افسر کاکہناتھا کہ کامران کا تعلق ایم کیوایم حقیقی سے تھا،عدالت کاکہناتھا کہ کبھی کہتے ہیں فلاں ایم کیوایم کبھی کہتے ہیں فلاں ایم کیوایم،کوئی جرم کیا ہے تو عدالتوں میں پیش کریں،بندہ برسوں سے لاپتا ہے کسی کو کوپروا نہیں ہے ، تفتیشی افسر کاکہناتھا کہ کامران کو پہلے رینجرز نے حراست میں لیا تھا پھر واپس آگیا تھا،عدالت کا کہناتھا کہ رینجرز نے کیوں حراست میں لیا تھا کیا جرم کیا تھا،رینجرز پراسیکیوٹر کاکہناتھا کہ رینجرز کی جانب سے تحریری جواب جمع کیا جاچکا ہے،بندہ ہمارے پاس نہیں ہے، عدالت نے استفسار کیاکہ رینجرز والے زیر حراست بندوں کو کہاں رکھتے ہیں،کوئی سب جیل ہے،رینجرز کی جانب سے بتایا گیا کہ سندھ حکومت نے انسداددہشت گردی ایکٹ کے تحت رینجرز کو نوے روز کے لیے بند کرنے کے خصوصی اختیارات دیے تھے،سندھ حکومت نے میٹھا رام ہاسٹل کو سب جیل قرار دیا تھا،ملزمان کو وہیں رکھا جاتا تھا،عدالت کاکہناتھا کہ میٹھا رام ہاسٹل کو سب جیل قرار دیا گیا تھا،میٹھا رام نے تعلیمی مقصد کے لیے ہاسٹل بنوایا ہوگا؟ اب میٹھا رام کی روح کیا سمجھ رہی ہوگی؟ کیا حال ہوگا ان کی روح کا؟ ۔ رینجرز کا کہناتھا ک ہم اس جگہ کو زیادہ بہتر مقصد کے لیے استعمال کررہے ہیں ، عدالت کاکہناتھا کہ سارے تعلیمی اداروں کی جگہیں رینجرز کے پاس ہیں ،تعلیمی ادارے تو نہیں دینے چاہییں، رینجرز کی جانب سے بتایا گیا کہ امن وامان کی خراب صورتحال کے پیش نظر سندھ حکومت نے رینجرز کو طلب کیا تھا،سندھ حکومت نے مخصوص جگہوں پر رینجرز کو ٹھہرایا ہے۔عدالت کاکہناتھا کہ ملک میں جنگل کا قانون ہے، اور توقع کرتے ہیں ہم کیا سے کیا کردیں گے،ملک کا قانون اور سرکاری زبان انگریزی میں ہے،نظام قبائلی چل رہا ہے،کہتے انصاف دو،کیسے دیں،پھر کہتے ہمیں یورپ جیسا ماحول اور پی ایچ ڈی بچے پیدا ہوں۔علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ میں 2017 سے لاپتا شہری کی گمشدگی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی ، عدالت نے استفسارکیاکہ لاپتا شہری کون تھا؟،شہری کی بازیابی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ؟،درخواست گزار کا کہناتھا کہ شہری محمد یوسف 2017 سے تھانہ سائٹ بی ایریا کی حدود سے لاپتا ہوا ہے،لاپتا شہری کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار لے کر گئے تھے،لاپتا شہری کے 2 بھائی شہید ہوچکے ہیں،اس کی اہلیہ نے دوسری شادی کرلی،لاپتا شہری کے تین بچے ہیں،اور کوئی کمانے والا بھی نہیں ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسر کو سندھ ہائی کورٹ کی 2018 کی ججمنٹ کا جائزہ لینے کی ہدایت کی درخواست گزار کاکہناتھا کہ لاپتا شہری کے3بچے ہیں کوئی کمانے والا نہیں ہے ،شہری کے اہلخانہ کی مالی معاونت کی جائے،عدالت نے سیکرٹری سوشل ویلفیئر ،سیکرٹری زکوٰۃ ویلفیئر و دیگر کو نوٹس جاری کر دیئے ،عدالت نے فریقین کو لاپتا شہری کا اہلخانہ کی مالی معاونت کرنے کا حکم دیتے ہوئے سیکرٹری سوشل ویلفیئر اور سیکرٹری زکوٰۃ ویلفیئر کے دو فوکل پرسنزکو عملدرآمد رپورٹ کے ساتھ 15 دن میں طلب کرلیا۔