اسلام آباد( نمائندہ جسارت +آن لائن ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد کی انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے غلط کیا تو حکومت نے بھی تو غلط ہی کیا، درخواست گزار کا کیا قصور تھا؟ ان کے کاروبار کو کیوں بند کیا؟24 نومبر کے پی ٹی آئی احتجاج کے خلاف تاجروں کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے کی۔ ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ، اسٹیٹ کونسل ملک عبد الرحمن اور دیگر عدالت میں پیش
ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے حکومت اور انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو امن و امان بحال کرنا تھا مگر آپ نے پورا اسلام آباد بند کر دیا، درخواست گزار نے کہا تھا ہمارے کاروبار کو چلنے دیں۔چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا آپ نے میڈیا پر ہر جگہ کہا اسلام آباد ہائیکورٹ کے آرڈر پر ہم اجازت نہیں دے رہے، عدالت نے آپ سے کہا تھا کہ شہریوں، تاجروں اور مظاہرین کے بنیادی حقوق کا خیال رکھیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا میں پی ٹی آئی سے بھی پوچھوں گا کہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کیوں کی گئی؟ میں ان سے بھی پوچھوں گا کہ حکومت سے لڑائی میں عام شہریوں کا کیا قصور تھا؟اسٹیٹ کونسل ملک عبد الرحمن کا کہنا تھا کچھ رپورٹس آگئی ہیں اور کچھ رپورٹس آنا باقی ہیں۔ عدالت نے اسٹیٹ کونسل پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ پہلی بار عدالت میں پیش ہوئے ہیں، یہ ماہرانہ رائے وہاں دینی تھی، آپ نے اسلام آباد کو ایسے بند کیا تھا کہ ججز سمیت میں بھی نہیں آسکا، میں اپنے ہی آرڈر کا خود ہی شکار ہو گیا تھا۔جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ احتجاج کے خلاف تاجروں کی درخواست پر سماعت کے دوران ہمیں کوئی سیکورٹی کلیئرنس نہیں دے رہا تھا، میں لاہور سے نہیں آسکا، ڈسٹرکٹ کورٹس بند تھیں، اسلام آباد ہائیکورٹ میں کام نہ ہونے کے برابر تھا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ عام آدمی کا کیا قصور ہے حکومت کے جھگڑے میں عوام کدھر جائیں گے؟چیف جسٹس عامر فاروق کی وزارت داخلہ کو تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی۔