ناقص تفتیش کی وجہ سے تکنیکی بنیاد پر شک کا فائدہ ملزمان کو دینا پڑتا ہے،جسٹس محسن کیانی

245

اسلام آباد (آن لائن)جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ جج کو ناقص تفتیش کی وجہ سے تکنیکی بنیاد پر شک کا فائدہ ملزمان کو دینا پڑتا ہے۔پاکستان میں میڈیکو لیگل قانون، اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت پر قومی مکالمے کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ دنیا میں چیزیں تبدیل ہو گئی ہیں لیکن ہم ابھی وہیں کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں فرانزک کے لوگ پولیس ڈیپارٹمنٹ سے الگ ہیں۔ فرانزک ڈیپارٹمنٹ کو پولیس سے بالکل الگ کرنا پڑے گا۔ قتل کے ایک کیس میں
لیڈی ڈاکٹر نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ایک انجری بھی نہیں لکھی۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ آپ ایک الگ سے قانون بنائیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اسلام آباد کی آبادی شاید 4.5 ملین ہے 72 ججز ہیں اور 54ہزار کیسز زیر التوا ہیں۔ پنجاب فرانزک ایجنسی اس وقت ایک بہترین مثال ہے۔ اس کی بہترین مثال گجرانوالہ موٹر وے ریپ کیس تھا، جس کے ذریعے ملزم کو پکڑا گیا۔ اسلام آباد میں 22 سال سے فرانزک لیبارٹری التوا کا شکار ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری دنیا تفتیش کے حوالے سے کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم آج بھی پرانی پوزیشن پر کھڑے ہیں۔ ہمارے ملک میں تفتیشی کو آج بھی جائے وقوع لکھنا نہیں آتا۔ جب کیس درست تیار نہیں ہوتا تو شک کا فائدہ تکنیکی بنیادوں پر ملزمان کو ہوتا ہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے فرانزک کا عملہ ہمیشہ پولیس سے الگ ہوتا ہے، مگر ہمارے ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا۔ 22 سال سے اسلام آباد فرانزک اتھارٹی بنی ہوئی ہے مگر جو کرنے کا کام تھا وہ نہیں کیا۔ جج کو تکنیکی بنیاد پر شک کا فائدہ ملزمان کو دینا پڑتا ہے، مگر متاثرہ خاتون یا مرد کو نقصان ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز مختلف وجوہات کی بناپر ضربات (انجریز) نہیں لکھتے۔ اسلام آباد میں 2 اسپتال ہیں ڈاکٹرز کی تعداد کم ہے۔ ڈاکٹرز کی تعداد کم ہونے کا کہہ کر میڈیکل سرٹیفکیٹ درست نہیں بنایا جاتا۔ پنجاب فرانزک لیب کا ڈیٹا اسلام آباد فرانزک لیب سے کہیں بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب فرانزک نے زینب کیس اور موٹروے زیادتی کیس کو ثابت کرنے میں اہم کردارادا کیا۔ اسلام آباد کے دونوں اسپتالوں میں شدید ترین رش ہے، اسلام آباد میں مزید اسپتال چاہییں۔ میڈیکو لیگل سے متعلق ڈاکٹرز الگ ہونے چاہییں۔ ڈاکٹرز کی عدالتی مقدمات کے تناظر میں تربیت ہونی چاہیے۔