چھوٹے دن اور لمبی راتیں

434

نومبر بن برسے گزر گیا، خشک سردی پڑ رہی ہے اس سردی کا کمال یہ ہے کہ اس میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوگئی ہیں۔ ہر سال اسی طرح ہوتا ہے یوں سمجھیے کہ جب سے یہ کائنات بنی ہے اور قدرت نے اس میں سورج کے ذریعے دن اور رات کا نظام قائم کیا ہے، لاکھوں سال سے اسی طرح ہورہا ہے، انسان نے سائنس میں بے پناہ ترقی کرلی ہے اس نے مصنوعی ذہانت کا ایک ایسا نظام ایجاد کرلیا ہے جو خود انسانی ذہانت کو مات دے رہا ہے۔ لیکن انسان قدرت کے شب و روز کے نظام میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں لاسکا۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی جبکہ گرمیوں میں یہی دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوجاتی ہیں۔ انسان کا بس چلے تو وہ دن اور رات کے اوقات کو ہمیشہ کے لیے یکساں کردے۔ یعنی بارہ گھنٹے دن اور بارہ گھنٹے کی رات لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔ دن اور رات کو موسموں کے اعتبار سے چھوٹا بڑا رکھنے میں قدرت کی بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں اور ان حکمتوں کا براہ راست فائدہ انسان کو پہنچ رہا ہے۔

آئیے اب کچھ سردی کی باتیں کرتے ہیں۔ سردی تو اکتوبر میں ہی آگئی تھی لیکن لوگوں نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ وہ بھی نہ چھپائے پھرتی رہی۔ نومبر آیا تو اس نے پَر پرزے نکالے اور لوگوں کو گرم کپڑے پہنے، بوڑھوں کو چادر اوڑھنے اور بچوں کی اونی جرسیوں کے ساتھ گرم ٹوپے پہننے پر مجبور کردیا۔ بارشیں نہ ہونے سے نزلہ زکام اور کھانسی کی وبا پھیل گئی اور ڈاکٹروں کا کاروبار چمک اُٹھا۔ اب دسمبر آیا ہے تو سردی کی شدت نے جاڑے کی صورت اختیار کرلی ہے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ جاڑا آتا ہے تو سردی اس کی آغوش میں چھپ جاتی ہے اور ہر طرف جاڑے کا ڈنکا بجنے لگتا ہے۔ دسمبر اور جنوری جاڑے کا مہینہ ہے۔ ان دو مہینوں میں جاڑا اپنے مخاطب کا نام پوچھتا ہے اور اس پر کپکپی طاری کردیتا ہے۔ یہ کپکپاہٹ آگ کے سوا اور کسی چیز سے نہیں جاتی یا پھر دھوپ اس جاڑے کا توڑ ہے۔ جاڑے میں دھند بھی اپنا رنگ جماتی ہے ابھی پچھلے مہینے تک پنجاب کے متعدد شہروں میں اسموگ کا راج تھا اس کا زور ٹوٹا ہے تو اس کی جگہ کہر اور دھند نے لے لی ہے۔ کہر کو عرف عام میں پالا بھی کہتے ہیں۔ پالا آسمان سے نازل ہوتا ہے اور درختوں، پودوں، پھولوں اور

سبزے کو برف کی نہایت باریک سی چادر سے ڈھانپ دیتا ہے اسی کو آپ کہر بھی کہہ لیجیے۔ البتہ دُھند پڑتی ہے تو چیزیں دھندلا جاتی ہیں اور حد نگاہ محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھند کے دنوں میں موٹر وے کے کچھ حصوں پر ٹریفک روک دی جاتی ہے۔ کیونکہ حد ِ نگاہ صفر ہوجانے سے گاڑیوں میں تصادم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اہل کراچی ہمارا یہ کالم پڑھ کر ہنسیں گے انہیں کیا پتا، جاڑا کیا ہوتا ہے۔ کراچی والے کہتے ہیں کہ دسمبر یا جنوری میں کوئٹہ کی ہوا چلتی ہے تو ہم بھی چند دنوں کے لیے سردی کا لطف اٹھالیتے ہیں ورنہ سردی ہماری قسمت میں کہاں۔ رہا جاڑا تو اس سے اہل کراچی کا شاید ہی ’’پالا‘‘ پڑا ہو۔ ایک پالے کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔ یہ پالا اور ہے جس کا سردی یا جاڑے سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ اہل کراچی کا پیپلز پارٹی کی حکومت سے پالا پڑا ہوا ہے جو انہیں ان کا حق دینے کو تیار نہیں ہے۔

یہ گندم کی بوائی کا موسم ہے۔ جہاں نہریں ہیں اور ٹیوب ویلز سے آب پاشی کا نظام موجود ہے وہاں کسان کے مزے ہیں وہ کھیتوں میں ہل چلا کر بیج ڈال دیتا ہے پھر کھیتوں کو وقفے وقفے پانی دے کر فصل کے لہلانے کا انتظار کرنے لگتے ہیں لیکن جن علاقوں میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے اور وہاں فصل کا تمام تر انحصار بارش پر ہے انہیں بارانی علاقے کہتے ہیں۔ بارانی علاقوں میں کسان بیج تو بو دیتے ہیں لیکن اس کے بار آور ہونے کے لیے بارش کے منتظر رہتے ہیں۔ بارش اللہ کی رحمت ہے اور باران رحمت کا نزول اس وقت ہوتا ہے جب اللہ اپنے بندوں سے راضی ہو۔ جب برائی عام ہوجائے اور خاص طور پر حکمران اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنے لگیں تو اللہ کی رحمت ان سے روٹھ جاتی ہے اور کسان بھی اللہ کی ناراضی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اس وقت صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ حکمرانوں نے اللہ کی عطا کردہ اس پاک سرزمین کو عدل و انصاف سے معمور کرنے کے بجائے ظلم و ناانصافی سے بھر دیا ہے۔ 26 نومبر کی شب اسلام آباد میں جو ہوا وہ ظلم کی بدترین مثال ہے، ایسے میں باران رحمت کہاں سے آئے؟ بے شک شاعر یہ فریاد کرتا رہے کہ

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

لیکن اس کی سنتا کون ہے۔ یہاں تو اندھوں بہروں نے ایکا کرکے چشم بینا رکھنے والوں کو محصور کر رکھا ہے۔

خیر چھوڑیے اس بحث کو، ہم پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ جاڑے کے دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں۔ دن اتنے چھوٹے کہ آدمی اپنا کوئی کام مکمل نہیں کرپاتا اور آج کا کام کل پر چھوڑنا پڑتا ہے اور راتیں اتنی لمبی کہ کاٹے نہیں کٹتیں لیکن صاحب یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کا دور ہے۔ جادو کے چھوٹے سے ڈبے نے وقت کو ہماری مٹھی میں بند کردیا ہے ہم راتوں کی طوالت کو جتنا چاہیں مختصر کرلیں۔ بڑے شہروں میں تو راتیں یوں بھی جاگتی رہتی ہیں۔ رہے چھوٹے شہر قصبات اور دیہات تو وہاں بے شک گلیاں سنسان ہوجاتی ہیں لیکن گھروں میں انٹرنیٹ کی بدولت رت جگا برقرار رہتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ایجاد کی بدولت ہم گلوبل ویلج کے حصار میں ہیں اور ہمارا بہت کچھ دائو پر لگا ہوا ہے۔ غالب نے سچ کہا ہے۔

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی!