کہتے ہیں کہ کوئی مْلک جب آزاد ہوجاتا ہے تو اْس مْلک کی عدلیہ بھی آزاد ہوجاتی ہے۔ ہمارا مْلک پاکستان بھی اَللہ کرے کہ جَلد سے جَلد آزاد ہوجائے۔ ہماری عدلیہ میں فی الحال فیصلے کیے جارہے ہیں، کبھی نظریۂ ضرورت کے تحت اور کبھی نظریۂ عقیدت کو سامنے رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اِن دنوں نظریۂ مصیبت کے تحت فیصلے کیے جارہے ہیں۔ ہمارے مْلک کے ساتھ جب ہماری عدلیہ بھی آزاد ہوجائے گی تب ہماری عدالتیں بھی انصاف کرنے لگیں گی۔ ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ قائد ِاعظمؒ کے آخری ایّام میں اْن کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا۔ ہمیں یہ بھی آگہی ہوجائے گی کہ لیاقت علی خان کو فی الواقع کس کے کہنے پر شہید کیا گیا تھا اور یہ کہ قاتل کو گرفتار کرکے قتل کے محرکات کا سبب جاننے کی کوشش کرنے کے بجائے اہم گواہ کو قتل کرکے اصل قاتل تک پہنچنے کے راستے کو کیوں مسدود کر دیا گیا تھا۔ اسلامی عدالتوں کے قاضی مْلک میں بگڑتے ہوئے حالات اور معاملات کو دیکھ کر مدعی یا وکیلوں کا انتظار نہیں کیا کرتے تھے، وہ بازاروں میں جاکر نان روٹی کی خوبی اور خرابی دیکھا کرتے تھے اور اوزان کی جانچ پڑتال بھی کیا کرتے تھے۔ چوری اور قتل کی تحقیقات قاضی اپنی ذمّے داری سمجھتے تھے۔ ہمارے مْلک میں قانون پر قانون تحریر کرنے کا رواج جب سے پڑا ہے تب سے اْس غریب قانون کا حلیہ بگڑتا چلا جارہا ہے۔ چھبیسویں ترمیم نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے، کون سا مقدمہ کون جج سنے گا اِس حوالے سے وکلا سرگوشیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور سائل بوکھلاہٹ میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ عدالت تو عدالت ہوتی ہے ایک ہی قاضی جو فیصلہ کردیا کرتا تھا لوگ اْسے انصاف ہی سمجھتے تھے۔ مغرب کی نقالی کرتے ہوئے ہم نے بھی چھوٹی، منجھلی اور بڑی عدالتیں بنالی ہیں۔ چھوٹی عدالت کا جج ملزم کی التجائوں پر کم توجّہ کرتا ہے اور الزام لگانے والوں پر اْس کی نظریں خوب ہوتی ہیں۔ الزام لگانے والا اگر کوئی سرکاری اہلکار ہو تو ملزم کی جانب ہونے والا جج صاحب کا کان ازخود بند ہوجاتا ہے اور سرکاری اہلکار کی طرف ہونے والا کان ایک لفظ کو دو دو بار سن لیتا ہے اور جج صاحب کا ہاتھ اْن باتوں کو دو بار لکھ بھی لیتا ہے۔ بیانِ حلفی کیا ہوتا ہے اِس بارے میں تو سارے وکلا جانتے ہیں لیکن اْس کے مندرجات کی گواہی کس کی نگرانی میں لی جارہی ہے اور اْس کی ذمّے داری کیا بنتی ہے، اْس حوالے سے اکثر وکلا ناواقف ہوتے ہیں جس کے باعث جھوٹے مقدمات کے انبار لگتے چلے جارہے ہیں۔ ایک تازہ حوالہ معروف صحافی مطیع اْللہ جان کا ہے۔ اْس صحافی کے طرزِصحافت سے کس کو تکلیف پہنچی ہے، اْس کی خبر تو نہیں ملی ہے۔ سرکار نے البتّہ اْس صحافی کے پاس سے منشیات اور ہتھیار برآمد کرنے کے علاوہ اْس پر غنڈہ گردی کرنے جیسے الزامات لگاکر اْس کو حوالہ ٔ زنداں کردیا تھا۔ ہمارا قانون یہ کہتا ہے کہ کسی آدمی کے پاس سے منشیات برآمد ہوجانے کی صورت میں اْسے کم ازکم چھے ماہ قید اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے اور کسی کے پاس بلا لائسنس ہتھیار نظر آجانے کی صورت میں اْس کو تین یا سات برس قید ِ بامشقّت اور جرمانے کی سزا دی جاتی ہے۔ سرکار کے باوردی اہلکار سے دھینگامْشتی کرنے والا دوہرے جرائم کا مرتکب قرار پاتا ہے۔ ایک تو کارِسرکار میں مداخلت اور دوسرا بدمعاشی کا ارتکاب۔ ایک چھوٹے جج نے سرکار کی طرف سے لگائے گئے یہ تمام الزامات کو درست جان کر مطیع اْللہ کو حوالہ ٔ زنداں کرنے کا حکم دے دیا تھا جبکہ دو منجھلے ججوں نے ملزم کو دس ہزار روپے مچلکے کے عوض رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ کیا اسیری تھی اور کیا رہائی ملی ہے، جو چاہے آپ کا حْسن کرشمہ ساز کرے۔قید کرنے والا غلط تھا یا رہا کرنے والا درست ہے، یہ معمّہ کوئی آزاد عدلیہ ہی حل کرسکتی ہے۔ کیا یہ عجیب منطق نہیں ہے کہ کرپشن کرکے بیرونِ مْلک جائداد بنانے والوں کو مبلغ پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر کے عوض ضمانت دے دی جاتی ہے اور کسی پر جھوٹے الزامات لگا کر اْس سے دس ہزار روپے وصول کرلیے جاتے ہیں۔ الزامات لگانے والے اور ضمانت دینے والوں میں گہری دوستی ہوتی ہے شاید۔