بھارت کی کوئک کامرس کمپنی زیپٹو کے سی ای او آدت پلیچا کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک پوسٹ وائرل ہوئی تھی جس میں کہا گیا کہ بھرپور کامیابی کے لیے ہفتے میں 84 گھنٹے کام کرنا لازم ہے۔ اس پوسٹ کے وائرل ہوتے ہی انٹرنیٹ پر ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔ کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کام اور زندگی کے درمیان توازن کے حوالے سے گرما گرم بحث ہوئی تھی۔
اب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپ لوڈ کی جانے والی چند متعلقہ پوسٹس کے نتیجے میں پھر بحث چھڑگئی ہے کہ انسان کو کتنا کام اور کتنا آرام کرنا چاہیے۔ بھارت بھر میں اس وقت اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ کسی بھی انسان کو کریئر میں کامیابی کے لیے کتنا کام کرنا چاہیے۔ یہ سوال اس لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ بیشتر کاروباری ادارے زیادہ کام لے رہے ہیں۔ ملازمین کو رات گئے تک کام کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی گھریلو اور سماجی زندگی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔
حکومت نے جو قوانین نافذ کر رکھے ہیں اُن کا احترام نہیں کیا جارہا۔ بیشتر کاروباری ادارے اور بالخصوص رجسٹریشن نہ رکھنے والے ادارے بارہ بارہ گھنٹے یا اِس سے بھی زیادہ کام لے رہے ہیں اور اِس کے نتیجے میں ملک بھر میں کروڑوں افراد کی زندگی عدمِ توازن کا شکار ہو رہی ہے۔
اب سوشل میڈیا پر یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ انسان کو ایک خاص حد تک ہی کام کرنا چاہیے اور اس کے لیے لازم ہے کہ اوقاتِ کار کا تعین کیا جائے اور انسان کو اس قدر آرام کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ کام کرتے رہنے کے قابل رہے۔