اسلام آباد:وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی احتجاج کے دوران حکومت نے سیکورٹی کو ترجیح دی اور اس دوران تحمل کا مظاہرہ کیا۔
مختلف ممالک کے سفرا کے سامنے بریفنگ میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں تحریک انصاف کو احتجاج سے روکا گیا تھا، تاہم وزیر داخلہ کی جانب سے رابطہ کرنے کے باوجود انہوں نے بات نہیں مانی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں ریڈ زون کی حفاظت کو ہر صورت یقینی بنائیں گے۔ اس کے پیش نظر حکومت نے نیا قانون ’’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر ایکٹ 2024‘‘ کا نفاذ کردیا ہے، جس کے ذریعے اسلام آباد میں ریڈ زون کے اندر کسی بھی طرح کے احتجاج یا مظاہروں پر پابندی ہوگی جب کہ عوامی اجتماع کے لیے مجسٹریٹ کی جانب سے این او سی کا حصول بھی لازمی ہوگا۔
سفارتی کور کے ارکان کو تحریک انصاف کے احتجاج کے باعث اسلام آباد میں درپیش آنے والے حالات پر بریفنگ میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ احتجاج سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کو ریڈ زون میں کسی بھی طرح کے احتجاج یا اجتماع سے روکا تھا، اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے پی ٹی آئی سے رابطہ کیا تھا، تاہم انہوں نے بات نہیں مانی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں ریڈ زون کی حفاظت حکومت کی ہمیشہ سے ترجیح رہی ہے، جہاں پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، کئی وفاقی ادارے اور سفارتی کور موجود ہیں۔ اس سب کے باوجود تحریک انصاف نے 24 نومبر کو احتجاج کا اعلان ایسے موقع پر کیا جب بیلا روس کے صدر کا دورۂ پاکستان ہو رہا تھا۔ ان کا یہ عمل ماضی کی طرح اہم مواقع پر احتجاجی مظاہرے کرنے کا ثبوت ہے۔
اسحاق ڈار کا بریفنگ میں مزید کہنا تھا کہ حال ہی میں ایس ای او سربراہ اجلاس بھی تھا، تو تب بھی تحریک انصاف نے احتجاج کیا۔ اس سے قبل 2014ء میں بھی ان کے احتجاج کی وجہ سے چینی صدر کا پاکستان کا دورہ التوا کا شکار ہوگیا تھا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی کی 35 نشستوں پر دھاندلی کے دعووں کو مسترد کر دیا تھا جو کہ 2014ء کے دھرنے کی بنیادی وجہ تھی، حکومت کے ساتھ تحریری معاہدے میں ایسا کرنے کا عہد کرنے کے باوجود پارٹی نے کبھی معافی نہیں مانگی۔
نائب وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سنگجانی میں متبادل احتجاجی مقام کی پیشکش کے باوجود تحریک انصاف نے ضد کے ساتھ ریڈ زون میں مارچ کرنے کی کوشش کی۔ آزادیوں اور انسانی حقوق کو اس طرح سے استعمال نہیں کرنا چاہیے جس سے لاقانونیت پیدا ہو اور پاکستانیوں اور سفارتی کور کے جان و مال کو خطرہ لاحق ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس دوران بھرپور تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف واٹر کینن اور آنسو گیس سے لیس تھے، گولہ بارود سے نہیں۔ ڈپلومیٹک انکلیو، پارلیمنٹ ہاؤس، وزیراعظم ہاؤس اور دیگر اہم عمارتوں کی حفاظت کے لیے فوج کے ساتھ پولیس اور رینجرز کو تعینات کیا گیا تھا۔