ہمارے سیاستدان اکثر ایک دوسرے پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ تو وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں لیکن علی امین گنڈا پور سیاست کے وہ کھلاڑی ہیں جو وکٹ کے چاروں طرف کھیلتے ہیں، جہاں موقع ملتا ہے وہیں شاٹ لگا دیتے ہیں۔ ہم نے سرخی میں انگلش کے جو چار الفاظ لکھے ہیں اس میں اردو کا لفظ ر چاروں کے آخر میں قافیے کے طور پر آیا ہے۔ ان چاروں انگلش الفاظ کے معنی دیکھیں جائیں تو یہ مختلف صلاحیتوں اور خصوصیات کی وضاحت کرتے ہیں۔ سیاست کی دنیا میں یہ چاروں الفاظ یا خصوصیات میٹر کرتی ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ کسی میں صرف ایک خصوصیت بہت اچھی اور زیادہ ہوتی ہے کسی میں کوئی دو خصوصیات ہوتی ہیں مثلاً وہ ایڈمنسٹریٹر بھی بہت اچھے ہوتے ہیں اور دو متضاد موقف رکھنے والے فریقین کے درمیان مڈل مین کا کردار بھی بہت بہترین انداز میں نبھاتے ہیں۔ اگر اس عنوان کا اردو ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا انتظام کار، سہولت کار، ثالث اور احتجاجی پروگرام کو بہت اچھا آرگنائز کرنے والا۔ ہمارے ایک دوست ہیں جو اسکول چلاتے ہیں وہ بہت اچھی ٹیچنگ کرتے ہیں کلاس میں طالب علم ان کے پڑھانے کے انداز کو پسند کرتے ہیں لیکن ان کے اندر انتظامی صلاحیتوں کی شدید کمی ہے اس لیے پڑھائی کا معیار بہتر ہونے کے باوجود دیگر معاملات میں جھول نظر آتا ہے اسٹاف کو تنخواہیں وقت پر نہیں مل پاتیں ڈسپلن کا فقدان نظر آتا ہے۔ ایک اور دوست جو اسکول چلاتے ہیں وہ کلاس نہیں لیتے کہ اچھا پڑھا نہیں پاتے لیکن انتظامی صلاحیتیں ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئیں ہیں۔ اسکول کا مجموعی ماحول، اس کی اندرونی تزئین و آرائش، اس کا ڈسپلن خود یہ گواہی دیتا ہے کہ اسکول کا ایڈمنسٹریٹر بہت با صلاحیت ہے۔ ایک اور دوست اسکول چلاتے تھے وہ پڑھاتے بھی اچھا تھے اور وہ انتظامی صلاحیتوں سے بھی مالا مال تھے (تھے کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ وہ اب امریکا اپنے بیٹوں کے پاس چلے گئے ہیں) ہر ماہ کی پانچ تاریخ کو تمام اسٹاف کی تنخواہوں کے لفافے تیار ہوجاتے بچوں کی فیسیں آئی ہیں یا نہیں، اس سے اسٹاف کو کوئی سروکار نہیں، اسی طرح اور ادائیگیاں بھی وہ وعدے کے مطابق بروقت کردیتے تھے۔ پڑھائی کا معیار بھی اچھا تھا۔
اسکول کی بات چل نکلی ہے تو ایک نکتہ اس میں اور شامل کرنا چاہتے ہیں ویسے تو اس کی کوئی خاص ضرورت تو نہیں تھی لیکن آگے جو سیاسی تجزیوں کی تحریر آئے گی تو آپ کو اس نکتے کی سمجھ آجائے گی۔ ہمارے کچھ دوست جو اسکول چلاتے ہیں ان کے یہاں یہ ہوا کہ جب ان کی شادی ہوئی تو کچھ عرصے بعد ان کی بیویوں نے اسکول میں اپنے شوہر کے ہیلپنگ ہینڈ کے طور پر آنا جانا شروع کیا پھر کچھ عرصے بعد یہ ہیلپنگ ہینڈ اپر ہینڈ بن جاتا ہے وہ بیک وقت ہیڈ مسٹریس ہوتی ہیں، اسکول کی ایڈمنسٹریٹر بھی بن جاتی ہیں اور کچھ عرصے بعد اسکول کی فائنانس ڈایکٹر بھی وہی ہوتی ہیں وہ ہر لیڈی اسٹاف پر نظر رکھتی ہیں اور اپنے شوہر پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں اس لیے کہ اکثر اسکول چلانے والے لوگ دو یا تین شادیاں کرتے ہیں۔ ایک بزرگ اسکول چلاتے تھے ہمارے ایک دوست ان کے یہاں فرنیچر سپلائی کرتے تھے ان بزرگ نے اسکول کے معاملات اپنے نوجوان بیٹے کے سپرد کردیے۔ ایک سال کے بعد دوست اسکول گئے تو دیکھا کہ وہی بزرگ کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں دوست نے پوچھا خیریت آپ نے تو اسکول بیٹے کے سپرد کردیا تھا انہوں نے کہا کہ ہاں بھئی کچھ عرصے بعد میں نے محسوس کیا کہ ہمارے ہاتھ سے اسکول بھی جارہا ہے اور بیٹا بھی۔ اس لیے بیٹے کو جاب دلادی اور خود انتظام سنبھال لیا اب جو ٹیچر کمرے میں آتی ہے میں اسے بیٹی کہہ کر مخاطب کرتا ہوں ہم نے یہی دیکھا ہے کہ جس اسکول میں بیویوں نے دخل اندازی کی اس کا نظام پہلے سے زیادہ بگڑ گیا، الا ماشاء اللہ۔
اب آتے ہیں کے پی کے وزیر اعلیٰ گنڈا پور کی طرف۔ پچھلے تین ٹرم میں کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت رہی ہے پہلے پرویز خٹک وزیر اعلیٰ تھے بعد میں محمود خان وزیر اعلیٰ بنے اگر دیکھا جائے تو پرویز خٹک کی پرفارمنس محمود خان سے بہتر تھی اور محمود خان کی کارکردگی سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے علاوہ کوئی بھی مطمئن نہیں تھا۔ ان کا پورا دور تنقید کی زد میں رہا گنڈا پور کی پرفارمنس پرویز خٹک سے اگر بہتر نہیں تو خراب بھی نہیں ہے مگر محمود خان سے تو بہت بہتر ہے۔ گنڈا پور کی ایڈ منسٹریٹر شپ اس لحاظ سے بھی قابل ستائش ہے کہ سابقہ دو وزرائے اعلیٰ میں سے ایک محمود خان اس دور میں صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے جب مرکز میں بھی تحریک انصاف کی حکومت تھی اور عمران خان وزیر اعظم تھے اور انہیں کسی قسم کی کوئی مشکل نہیں تھی۔ پرویز خٹک بھی مرکز میں کسی اور کی حکومت کے باوجود کمفرٹیبل پوزیشن میں تھے عمران خان جیل میں نہیں تھے باہر رہ کر اپوزیشن کا کردار ادا کررہے تھے۔ لیکن گنڈا پور کے دور میں تو عمران خان جیل میں ہیں اور مرکز میں تحریک انصاف کا مینڈٹ چرائے ہوئے لوگوں کی حکومت ہے ان کو بڑی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر آئے دن عمران خان دھرنے اور جلوس کا کال دیتے رہتے ہیں اور وہ بھی سب سے زیادہ امید گنڈا پور ہی سے رکھتے ہیں۔ اب گنڈا پور کی انتظامی صلاحیتیں ہی ہیں کہ دس ماہ سے اس شدید کشمکش کے ماحول میں اپنے صوبے کا انتظام چلا رہے ہیں اور اچھا چلارہے ہیں جبکہ ان کے صوبے میں دہشت گردانہ کارروائیاں بھی اس درمیان میں بہت زیادہ ہوئیں اور یہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس دہشت گردی کی وجہ صوبائی حکومت کے اقدامات نہیں ہیں بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں دوسری مشکل تحریک انصاف کی صوبائی تنظیم کے اندر باہمی اختلافات بھی ہے۔ انتظامی صلاحیتوں کے بعد ان کی دوسری خصوصیت ان کی سہولت کاری ہے کہ وہ اپنی تنظیم کے بھی سہولت کار ہیں بہت سارے حوالوں سے وہ مرکزی حکومت کے بھی سہولت کار ہیں ان کی بعض پر اسرار حرکات و سکنات ایسی ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بھی سہولت کار نظر آتے ہیں وہ اس کے لکھے ہوئے اسکرپٹ کے مطابق کام کرتے ہیں اب آج کل وہ بشریٰ بی بی کے سہولت کار ہیں کہ نیب کی ٹیم بشریٰ بی بی کو گرفتار کرنے آئی ناکام اور نامراد واپس گئی۔ تیسری خصوصیت ان کے مڈل مین ہونے کی ہے اس کی بھی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن مضمون لمبا ہو جائے گا۔
اب آئیے ان کی چوتھی خصوصیت کی کہ وہ بہترین ایجی ٹیٹر بھی ہیں بڑی بھڑک مارتے ہیں، خوفناک قسم کی دھمکیاں دیتے ہیں اپنی سرکاری حیثیت کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں وہ بیک وقت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد بھی حاصل کرتے ہیں۔ جوش و خروش سے بھرپور ہزاروں مظاہرین کو اپنے جلو میں ساتھ لے کر نکلتے ہیں اور رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہوجاتے ہیں اور چائنا چوک تک پہنچ جاتے ہیں اب تک وہ اسکرپٹ کے مطابق چل رہے تھے۔ یہاں پر آکر تھوڑا معاملہ گڑ بڑ ہوگیا بیرسٹرگوہر کی اور کے پی کے وزیر اطلاعات کی باقاعدہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرائی گئی سنگجانی جانے کے لیے وہ تیار ہوگئے جب بیرسٹر گوہر نے یہ پیغام گنڈا پور تک پہنچایا جو کہ وہ پہلے سے جانتے تھے پھر گنڈا پور نے جب یہی بات بشریٰ بی بی کو پہنچائی وہ نہیں مانی اور یہ اصرار کرتی رہیں کہ ہمیں ڈی چوک جانا ہے۔ ادھر وزیر داخلہ نے بیرسٹر گوہر کو سنگجانی کی جو تجویز دی وہ کیا اپنی طرف سے دی تھی ان کے پاس بھی کہیں سے ہدایت آئی ہوگی۔ دو ڈھائی سو مظاہرین ڈی چوک پہنچ گئے تھے وہاں پر موجود رینجرز اور فوج نے ان سے باقاعدہ ہاتھ ملا کر ڈی چوک چھوڑ دیا تھا اس لیے کہ انہیں یقین تھا کہ مرکزی جلوس یہاں نہیں آئے گا ڈی چوک پہنچنے والے لوگ اپنی مرکزی قیادت کو بلاتے رہے لیکن مرکزی قیادت کوتو وہاں جانا ہی نہیں تھا۔ یہ بات بھی آئی ہے کہ گنڈا پور تو بشریٰ بی بی کو لانا ہی نہیں چاہتے تھے انہوں نے بہت منع بھی کیا لیکن قائد کی اہلیہ کے سامنے سرنڈر کر گئے۔
اب آپ اسکول والی مثال دوبارہ دیکھ لیں۔ بشریٰ بی بی کی ضد نے طے شدہ پلان کو بگاڑ دیا تو شاید پلان بی پر عمل کیا گیا رات ہوگئی تھی اندھیرا کردیا گیا شدید قسم کی آنسو گیس اور فائرنگ شروع ہو گئی ربڑ کی گولیاں بھی چلائی گئیں مجمع تتر بتر ہوگیا اب بشریٰ بی بی کے ترجمان کا جو کل بیان آیا وہ دیکھ لیں کہ وہ کہتی ہیں کہ بشریٰ بی بی کو کنٹینر سے یہ کہہ کر کار میں بٹھایا گیا کہ اس پر ڈی چوک چلتے ہیں شدید فائرنگ ہو رہی ہے کھلے ٹرک پر مناسب نہیں ہے گنڈا پور کو یہ گھبراہٹ تھی کہ اگر بشریٰ بی بی کے ایک گولی بھی غلطی سے لگ گئی تو وہ عمران خان کو کیا جواب دیں گے ترجمان کہتی ہیں کہ ان کی کار کی ونڈ اسکرین اور سائیڈ کے شیشوں پر آئل یا کوئی ایسا کیمیکل ڈال دیا گیا کہ باہر کا کچھ نظر نہ آئے اور ان کو دھوکے سے مانسہرہ پہنچا دیا گیا۔
شاید آئل اس لیے ڈالا گیا ہوگا کہ گاڑی کی پہچان رہے کہ اس پر فائرنگ نہیں کرنی اور واپس مانسہرہ تک کا محفوظ راستہ ان گولیوں کی بوچھاڑ میںکس نے دیا یہ دو سوالات تو بنتے ہیں۔ بہرحال بشریٰ بی بی نے اس کا غصہ دوسرے دن کے اجلاس میں مرکزی قیادت کو بے غیرت اور بے شرم کہہ کر اُتارا دوسری طرف فائرنگ سے لاشیں گرتی رہیں اور گرانے والے ہی اٹھاتے رہے کئی سو زخمی ہوئے بارہ مرنے والوں کی لاشیں نہیں مل رہیں، اس لیے گمشدہ افراد کی بازیابی کی مہم تو اس ملک میں پہلے سے چل رہی ہے اب گمشدہ لاشوں کی بازیابی کی مہم کا بھی آغاز ہونے والا ہے۔