جناب میر سرفراز خان بگٹی بلوچستان کے وزیراعلیٰ ضرور ہیں مگر وہ بلوچستان کے مقبول عوام لیڈر نہیں اگر وہ صوبے کے عوام کے دل کی آواز ہوتے تو آج اُن کی موجودگی میں بلوچستان کے اندر ’’فوجی آپریشن‘‘ کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بلوچستان کی صورت حال پر ہم تفصیل کے ساتھ بعد میں لکھیں گے۔ نواب اکبر خان بگٹی سے سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی سمیت اُن تمام بلوچ سرداروں کے ساتھ دوستی اور ملاقاتوں کا ذکر ہوگا کہ جس کا کردار آج بھی بلوچستان کی سیاست اور دیگر حالات پر گہرے اثرات رکھتا ہے۔
سردست ہم ایک مختصر تجزیہ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جس کی وجہ بھی جناب سرفراز بگٹی صاحب کے وہ کالم تھے کہ جو چند ہفتے پہلے ایک ادھ اخبار میں شائع ہوئے اور جن میں وزیراعلیٰ صاحب نے اپنے طور پر خود کو کلیئر کرنے کی کوشش کی… تب ہم نے محسوس کیا کہ بلوچستان کے حوالے سے ہمارے پاس بھی جو معلومات اور تجزیہ ہے اُسے عوام کے ساتھ شیئر کیا جائے۔
1948ء کے بعد بلوچستان میں حالیہ ’’فوجی آپریشن‘‘ غالباً تیسرا یا چوتھا ہوگا۔ فوجی آپریشن کی ضرورت بار بار کیوں پیش آرہی ہے۔ غلطی کہاں اور کس سے ہورہی ہے۔ بلوچستان عالمی سازشوں کا گڑھ کیوں اور کس طرح سے ہے۔ بلوچستان کے نواب، سردار، منتخب نمائندے اور بیوروکریٹس کہاں تک اپنے صوبے کے امن اور خوشحالی کی بحالی کے لیے فکر مند اور سنجیدہ ہیں اس پر بھی تفصیل سے بات ہوگی۔ ان شاء اللہ۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کے کالم میں اگر ہم صرف اِس ایک سوال کا جواب ہی تلاش کرلیں تو کافی ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ جناب سرفراز بگٹی 2 سال سے زائد عرصے تک صوبائی اور وفاقی وزیر داخلہ رہے اور اب ایک بااختیار وزیراعلیٰ ہیں مگر اِس تمام عرصے میں بلوچستان میں امن قائم نہ ہوسکا اگر بلوچستان امن سے محروم رہا تو پھر یہ کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ سرفراز بگٹی بحیثیت وزیرداخلہ اور وزیراعلیٰ کامیاب رہے؟ نیشنل ایپک کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب کا یہ کہنا کہ ’’گورننس کی خامیوں کو روزانہ شہیدوں کی قربانیاں دے کر پورا کررہے ہیں‘‘ کا مطلب کیا ہوا۔ کیا یہ بات اخلاقی تقاضوں اور سیاسی حوالوں سے ضروری نہیں تھی کہ جب صوبائی اسمبلی، صوبائی کابینہ اور وزیراعلیٰ صوبے میں امن وامان بحال کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں تو اِس طرح کی صورت حال میں صوبائی اسمبلی اور حکومت توڑ کر ’’گورنر راج‘‘ لگادیا جاتا اور پھر فوجی آپریشن گورنر راج کے تحت ہی اپنے اہداف کی طرف پیش قدمی کرتا مگر حیرت ہے کہ جو حکومت اور اُس کا سربراہ بہت پہلے سے ناکام جارہے ہیں وہ اب کیونکر فوجی آپریشن کو کامیاب کرا پائیں گے، یا کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ آپریشن کو مزید بدنامی اور ناکامیوں سے دوچار کرنے کا سبب بنیں گے؟
علاوہ ازیں جناب سرفراز بگٹی یہ بات بھی بخوبی جانتے ہوں گے کہ جب ملک میں سیاسی کشیدگی، انتشار، انارکی اور تشدد پھیلنے لگے تو ایسے میں ’’مقبول عوام سیاسی قیادت‘‘ کو وزارتِ اعلیٰ سے برطرف کرکے بلوچستان میں ’’گورنر راج‘‘ لگانے کا فیصلہ کیا تو وزیراعظم بھٹو اور گورنر نواب بگٹی نے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دور دراز علاقوں کے دورے کیے اور عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔ مشکل وقت میں حکمرانوں کا عوام کے درمیان موجود ہونے سے عام آدمی کا حوصلہ بڑھتا اور دہشت گردوں پر خوف طاری ہوتا ہے، تاہم ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان کے حالات گزشتہ دو تین برس سے بہت زیادہ خراب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ علٰیحدگی پسند اور دہشت گردوں کی سرگرمیاں اور وارداتیں ناقابل برداشت ہوچکی ہیں، پورے صوبے کے عوام خوفزدہ اور خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ دیگر صوبوں کے ساتھ زمینی راستے بھی تقریباً بند ہوتے چلے جارہے ہیں مگر ہم میں سے کبھی کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جناب میر سرفراز خان بگٹی نے قلات، پنجگور، بیلہ، تربت، مستونگ، سبی، ٹہری، ڈیرہ بگٹی، ڈیرہ مراد، ڈیرہ اللہ یار، اوستہ محمد، صحبت پور، جھل مگسی یا کوئٹہ میں کوئی کھلی کچہری کی ہو، جلسہ عام سے خطاب کیا ہو، قبائلی عمائدین سے ملاقاتیں کی ہوں، کسی دعوت میں شرکت کی ہو، کسی یونیورسٹی میں جا کر طلبہ کے سامنے دہشت گردوں کے ناپاک ارادوں اور مذموم مقاصد سے نوجوانوں کو آگاہ کیا ہو یا یہ کہ ان کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کیا ہو، لاپتا افراد کے کیمپ کا دورہ کیا ہو، امن کی خاطر سیکورٹی فورسز کی قربانیوں سمیت حکومت بلوچستان کی کارکردگی بتائی ہو۔
بہرحال ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جناب سرفراز بگٹی کو کوئٹہ ائرپورٹ سے وزیراعلیٰ ہائوس تک ہی بلوچستان نظر آتا ہے حالاں کہ اِن کی ترجیح تو ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ہونی چاہیے تھی تاہم حکمران سیاستدان حضرات جس طرح سے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے جو کھیل کھیل رہے ہیں اِس پر بلوچستان کے عوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ اللہ پاک وطن عزیز پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین