پاکستان میں یوں تو کرکٹ کا کھیل سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے لیکن کھیلا سب سے زیادہ سیاست سیاست کا کھیل جاتا ہے۔ جسے اس قدر محو ہو کر کھیلا جاتا ہے کہ کسی جان اور مال کا خیال بھی نہیں کیا جاتا بلکہ جان و مال تو معمولی بات ہے پاکستان کو بھی دائو پر لگانے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ حکومت اور اپوزیشن اس کھیل کے دو کھلاڑی ہیں اور عوام دونوں کے لیے پیادہ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ سب سے اہم خفیہ ہاتھ ہوتا ہے جس کو پاکستان کی بھلائی اور کامیابی کا سب سے زیادہ ادراک ہوتا ہے۔ دونوں کھلاڑی اور عوام اس کی سمجھ نہیں رکھتے لہٰذا خفیہ ہاتھ جس کو اسٹیبلشمنٹ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ وہی پاکستان کی سیاست، دفاع اور مستقبل کی جوہری پالیسیوں سمیت ہر طرح کے فیصلوں کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اسٹیفن پی کوہن اپنی کتاب (آئیڈیا آف پاکستان) میں لکھتے ہیں کہ یہ پاکستان میں انتظامی قوت ہے جس میں فوج، سول سروس، عدلیہ کے کلیدی ارکان اور کچھ دوسرے اہمیت کے حامل سیاسی اور غیر سیاسی افراد ہوتے ہیں۔ یہ درمیانی راستے کے نظریے پر قائم ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے ملک کو غیر روایتی سیاسی نظام کے تحت چلایا جاتا۔ ان کی ایک اہم پالیسی انتخابات اور ان کے انتظام پر اثر انداز ہونے کی ہوتی ہے۔ اس پالیسی کے تحت سیکولر اور لبرل گروہوں کو تمام اتحادوں اور سیاسی جماعتوں کا حصہ ہونا چاہیے ورنہ وہ کامیابی کا صرف خواب دیکھ سکتے ہیں۔
پاکستان کی فوج کو پاکستان میں جمہوری عمل ختم کرنے یا اُسے اپنی مرضی کے مطابق چلانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں ایک تجارتی گروپ ہونے اور ملکی اور خارجہ پالیسیوں پر بہت زیادہ کنٹرول کرنے کی وجہ سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے باعث سیاست اور سیاسی ادارے ہمیشہ شکست وریخت کا شکار رہے۔ سیاسی جماعتیں اُن کے کندھوں پر سوار ہو کر حکومت میں آنے کا یقینی ذریعہ سمجھنے لگیں۔ تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو سیاسی جماعتوں کو پروان چڑھانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے کیا کچھ نہیں کیا، لیکن وہ یہ نہ سمجھ سکی کہ فطری طریقے سیاسی جماعتوں کو عوام سے جوڑتے ہیں۔ جس کے باعث ان کی جڑیں عوام میں پھلتی پھولتی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ سیاستدانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی اور کبھی نورا کشتی پر محیط رہی ہے۔ جس نے دوطرفہ فاصلوں کو بڑھایا ہے، اس کی ابتدا پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد سے شروع ہوگئی تھی۔ یعنی پاکستان بننے کے محض 6 سال بعد 1953ء میں، اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل غلام محمد نے ایوب خان سے مشاورت کرکے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹادیا۔ انہیں ایک ایسے وقت میں ہٹایا گیا جب نوزائیدہ ریاست کی قومی اسمبلی کا اعتماد انہیں حاصل تھا وہ اسمبلی سے متفقہ بجٹ بھی پاس کراچکے تھے۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ انہیں ہٹانے کی وجہ وہی تھی جو بعد کی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کی تھیں۔
بعض مورخین کے مطابق خواجہ ناظم الدین جو دستور تیار کروا رہے تھے اس میں گورنر جنرل کے اختیارات کم کردیے گئے تھے۔ ناظم الدین ایوب خان کو توسیع دینے اور فوج کے حجم کو قومی وسائل سے زیادہ بڑھانے کے مخالف تھے۔ خواجہ ناظم الدین کے بعد ایوب خان کی آمریت 1969ء تک چلی اس کے بعد انتہائی شدید عوامی ردعمل کے نتیجے میں ایوب خان کو حکومت چھوڑنا پڑی لیکن انہوں نے جاتے ہوئے ملک کی باگ دوڑ اپنے جنرل (یحییٰ خان) کے ہی سپرد کردی، جنہوں نے ایک ایسے الیکشن کرائے جو خانہ جنگی اور ملک کو توڑنے کا باعث بنے۔ اس سب کے نتیجے میں سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کمزور ہوئی ذوالفقار علی بھٹو حکمران تھے انہیں دوسری دفعہ اقتدار کی بے پناہ ہوس تھی ملک دولخت ہونے کے بعد انہوں نے 1977ء میں الیکشن کرائے جن میں اس قدر دھاندلی ہوئی کے ساری سیاسی جماعتوں نے مل کر اُن کے خلاف اتحاد بنالیا اور پھر ضیا الحق نے مارشل لگا کر ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ اس سارے عمل کے بعد وہ اسٹیبلشمنٹ جو کمزور پڑ گئی تھی ایک بڑے سیاستدان کے رویے نے اُسے پھر طاقتور کردیا اور ملک سیاسی بھنور کا شکار ہوگیا۔ اس بھنور میں پھنسے اور پھنسے رہنے کی وجہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں دونوں میں اگر سیاستدانوں اپنے دائرے میں رہیں، ملک کی ترقی اور معیشت کو بہتر بنانے پر توجہ دیں تو ان کی جڑیں عوام میں بڑھیں گی، اسٹیبلشمنٹ کا اثر اور کمزور ہوگی۔ لیکن سیاست اپنے بینک بیلنس پر توجہ دیتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے فوائد دیکھتے۔ عوام دھاندلی کے باعث ایک طرف انتخابات دوسری طرف جمہوریت سے ناامید اور بیزار ہوجاتے ہیں۔ جو ملک کو کمزور کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ ملک کے ہر مسئلے کا حل ایماندار، بے غرض اور محب وطن قیادت ہے جسے نہ کسی کے کندھوں پر سوار ہو کر حکومت میں آنے سے دلچسپی ہو… اور نہ بے ایمان، دھاندلی اور خیرات کی سیٹوں کا لالچ ہو۔