غزہ میں جاری آتش وآہن کی بارش کو 422 دن بیت گئے اور کوئی نہیں جانتا کہ نہتے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟، اسرائیل کا غزہ پر حملہ 7 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوا جب قسام بریگیڈ کے مجاہدین نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا، اس حملے میں تقریباً 1,140 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 240 افراد کو قیدی بنا کر غزہ لے جایا گیا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر شدید بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا اور اس محاصرے کو مزید سخت کر دیا جو 2007 سے پہلے ہی جاری تھا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 17,492 بچوں سمیت 44,429 افراد شہید ہوچکے ہیں جب کہ 105,250 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اسرائیل کی اس کھلی سفاکیت پر عالمی طاقتیں تو مْہر بہ لب ہیں حکمران بھی سرد مہری اور بے بسی و بے حسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں، ان بے پناہ مظالم پر کوئی نہیں جو اس جارح کا ہاتھ روکے، ایسے میں اب یہ اطلاع آئی ہے کہ: ’’اسرائیل نے انسانی جسم کو تحلیل کر کے بخارات بنانے والے ہتھیار چلادیے، عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق غزہ کے محکمہ ٔ صحت کے سربراہ ڈاکٹر منیر البرش نے کمزور اور لاچار فلسطینیوں پر استعمال ہونے والے اسرائیلی اسلحے سے متعلق ہولناک انکشافات کیے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی افواج ایسے ہتھیار استعمال کر رہی ہے جن سے مرنے والوں کی لاشیں بخارات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اسرائیل نہتے فلسطینی پناہ گزینوں پر خطرناک کیمیکل اور مواد والے بم برسا رہا ہے جس کے ہولناک اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ ڈائریکٹر ہیلتھ نے کہا کہ عالمی قوتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس پر فوری ایکشن لینا چاہیے اور اسرائیل کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا‘‘۔
اسرائیل اور اس کے عالمی پشت پناہ اس کھلی جارحیت اور سفاکیت کی یہ توجیح پیش کرتے ہیں کہ جنگ کا آغاز تو حماس نے کیا تھا، اسرائیل تو یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کر رہا ہے، سوال یہ ہے کہ اگر اس موقف کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس سے قبل اسرائیل کی جانب سے غزہ اور مغربی کنارے کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی کیا توجیح پیش کی جائے گی؟، بالفرض محال اگر اس موقف کو مان بھی لیا جائے تو 7 اکتوبر 2023 سے اب تک مغربی کنارے میں پانچ سو افراد کی شہادتوں کی کیا توجیح ہوگی؟ بڑے پیمانے پر بلڈوزروں سے فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کی کیا دلیل ہے، حقیقت یہ ہے کہ ظالم کو ظلم کے لیے کسی وجہ کی ضرورت نہیں، تاریخ میں ہمیشہ جارح قوتوں نے پہلے جارحیت کی ہے پھر اس کی توجیح پیش کی ہے۔ خوئے بدرا، بہانہ بسیار۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جنگ کے دوان نہتے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اسرائیل یہ خلاف ورزی کھلے عام کر رہا ہے، ایسے میں اسرائیل کو ان مظالم سے روکنے کے لیے جس عملی، ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت تھی وہ نہیں کیے گئے، بلکہ عملاً قابض گروہ کی پشت پناہی کی گئی اور ہنوز اسرائیل کی بلا مشروط حمایت کا سلسلہ جاری ہے، غزہ میں اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے نمائندے بھی بار بار متنبہ کر رہے ہیں کہ موسم کی خرابی، مسلسل بمباری اور خوراک کی قلت کی وجہ سے شدید انسانی المیہ رونما ہونے کو ہے، مگر ان کی کون سنتا ہے، انسانیت کا درد رکھنے والے کچھ رہنما اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی آواز بلند کر رہی ہیں مگر ان کی آواز بھی نقش بر آب ثابت ہورہی ہے، ایسے میں نہتے فلسطینی داد رسی کے لیے کس کے پاس اور کہاں جائیں، لے دے کر اقوام متحدہ ایک ادارہ تھا جسے اس تنازع پر اپنا کردار ادا کرنا تھا، لیکن اس کی کون سنتا ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندوں نے غزہ میں جاری بمباری، انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹوں، اور بے گناہ شہریوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات پر سخت تنقید کی ہے۔ چین اور دیگر ممالک نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکا جائے، اور اسرائیل کو اجتماعی سزا جیسے اقدامات ختم کرنے کی ہدایت کی جائے۔ مزید برآں، کئی ممالک نے غزہ کے شہریوں کو فوری امداد پہنچانے کے لیے زمینی راستوں کی بحالی پر بھی زور دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں جنگ بندی اور انسانی امداد کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ کئی ممالک نے اس صورتحال کو خطے میں امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ المیہ یہ نہیں ہے کہ فلسطین پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت سے مغرب کا دوہرا معیار اور مسلم دشمنی کھل کر سامنے آگئی ہے، دکھ کی بات یہ ہے کہ آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) اور عرب لیگ بھی منہ میں دہی جمائے بیٹھے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے سعودی عرب کی سربراہی میں قائم ہونے والے 39 اسلامی ممالک کی اتحادی فوج اور اس کے سربراہ بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ غزہ میں ایک جانب آگ و خون کی بارش ہے تو دوسری خوراک و ادویات کی شدید قلب، غزہ کے عوام کو امداد کی ترسیل کا واحد راستہ رفح کراسنگ ہے مگر یہاں بھی مصر کے غاصب صدر سیسی مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے مظلوم عوام کی امیدوں، آرزوں، احساسات و جذبات کی ترجمانی اور فلسطینیوں کے لیے دنیا بھر سے آئی امداد کی بروقت اور باآسانی ترسیل کو آسان بنانے کے بجائے امریکا اور اسرائیل کی خواہشوں کا احترام کر رہے ہیں، دوسری جانب سعودی عرب نے اس پوری واقعے پر اپنی آنکھیں کچھ اس طرح بند کی ہوئی ہیں کہ جیسے ان کے پڑوس میں کچھ ہوا ہی نہ ہو دارالحکومت ریاض میں کنسرٹس پارٹی اور فیشن شو کا انعقاد سعودی حکمرانوں کی بے حسی و بزدلی کا بین ثبوت ہے۔ اس پوری صورتحال میں دنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہیں ترکی پر جمی تھیں کہ وہ کوئی کردار ادا کرے گا، مگر بدقسمتی سے ترکی نے اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی امید کی جارہی تھی۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سمیت تمام مسلم حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج اگر انہوں نے نہتے، بے بس و بے کس فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند نہ کی اور اپنا وہ کردار ادا نہ کیا جوفی الواقع انہیں کرنا چاہیے تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی، جس طرح ماضی میں مظلوموں کی حمایت سے دست کشت رہنے والے حکمران تاریخ کے کوڑے دان میں ہیں یہ بھی قصہ پارینہ بن جائیں گے اور تاریخ میں ظالموں اور غاصبوں سے نبرد آزما مٹھی بھر جانبازوں اور جانثاروں کی ہمت وشجاعت کو سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا۔ فلسطین کی اس ناگفتہ بہ صورتحال پر ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکمران واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کریں، نہتے فلسطینیوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں، اور یاد رکھیں کہ جارح قوتیں جنگلی بھینسے کی طرح ڈکراتی ہوئی مسلم ریاستوں کی آزادی و خودمختاری پامال کر رہی ہیں، مجرمانہ خاموشی برقرار رہی تو اس صورتحال کا سامنا انہیں بھی کرنا پڑسکتا ہے۔
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں