آرٹس کونسل کراچی کی چار روزہ عالمی اردو کانفرنس کا آغاز 5دسمبرسے ہوگا، صدر احمد شاہ

142
The four-day international Urdu conference

کراچی(اسٹاف رپورٹر) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ ”سترھویں عالمی اردو کانفرنس 2024 کا آغاز 5 دسمبر سے ہوگا ۔

تفصیلات کے مطابق جشن کراچی“ کے حوالے سے اہم پریس کانفرنس کا انعقاد حسینہ معین ہال میں کیا گیا جس میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، معروف دانشور و مزاح نگار انور مقصوداور معروف شاعر افتخار عارف، نورالہدیٰ شاہ اور اعجاز فاروقی نے بریفنگ دی، سترھویں عالمی اردو کانفرنس میں اس سال ”جشن کراچی“ منا یا جارہا ہے، عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی کا آغاز 5 دسمبر 2024 کو YMCA گراؤنڈ میں کیا جائے گا، کانفرنس 8 دسمبر تک جاری رہے گی، کانفرنس میں 60 سے زائد سیشن رکھے گئے ہیں جبکہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر کیک بھی کاٹا جائے گا۔

صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے پریس کانفرنس میں کہاکہ افتخار عارف اور انور مقصود نے اردوزبان کے لیے بہت کام کیا، مودی سرکار نفرتوں کی ایجنٹ ہے ،ہندوستان اور پاکستان کے لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ، ہم ایک ریاست کے طور پر اپنا وجود قائم رکھنا چاہتے ہیں، میں صبر کرلوں گا اور میڈیا کے ذریعے جاوید صدیقی اور گلزار صاحب سے بات کروں گا، ہم نے ہندوستان سے بھی ادیبوں کو مدعو کیا ہے، ہر چیز کے مثبت اور منفی اثرات ہوتے ہیں اسی طرح عالمی اردو کانفرنس کے بعد دوسرے فیسٹیول اور کانفرنسز ہونا شروع ہوگئیں

ان کا کہنا تھا کہ تین سو سال سے لاہور اردو کا مرکز رہا لیکن اس شہر میں بسنے والے لوگوں کی یہ زبان مادری نہیں تھی، پنجاب کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ اردو کے لیے انہوں نے جتنا کام کیا کسی نے نہیں کیا، ہمیں تمام زبانوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، ہندوستانی جس کو ہندی کہتے ہیں وہ ہندی نہیں اردو ہے ، اردو زبان پوری دنیا میں لٹریچر کے ذریعے تو پہنچی لیکن اسے گانے والوں نے بہت مقبول کیا ، مہدی حسن نے اردو غزل کو اس مقام پر پہنچایا ، اقبال بانو اور فریدہ بانو سے پہلے لوگوں کو غالب کی غزلوں کا پتا نہیں تھا کہ یہ گائی بھی جاسکتی ہیں

محمد احمد شاہ کا کہنا تھاکہ ہماری نئی نسل اپنی زبانوں اور تہذیبوں سے دور ہوتی جارہی تھی کیونکہ اردو سرکاری زبان نہیں نوکری صرف انگریزی بولنے اور لکھنے والے کو ملتی ہے، کوئی بھی زبان خالی زبان نہیں ہوتی اس کے پیچھے اس کی تہذیب ہوتی ہے، عالمی اردو کانفرنس ہماری قومی ثقافتی کانفرنس ہے ، ہماری اندرونی اور بیرونی پاکستان کے دشمنوں کی وجہ تمام زبانوں کے لوگوں کو سازش کے تحت تقسیم کیاگیا، ہم نے تمام زبانوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا ہے، جو تہذیب کا دشمن ہے وہ ملک کا دشمن ہے، جب عالمی اردو کانفرنس کا آغاز کیا تو افتخارِ عارف کی صدارت میں مشاعرہ ہو رہا تھا اور باہر چالیس لاشیں پڑی تھی اس وقت ہم نے لائٹیں بندکرکے مشاعرہ جاری رکھا، اس وقت کوئی سیکورٹی نہیں تھی

صدر آرٹس کونسل کا کہنا تھا کہ پاکستان کے شہر کراچی کو جہاں خراب کہا جارہا تھا وہی ہم نے ورلڈ کلچر فیسٹیول کراچی کی اختتامی تقریب میں 30 ہزار عوام کو ایک جگہ اکٹھا کرکے آنے والے تمام ممالک کے مہمانوں کو خوش آمدید کہا، انہوں نے کہاکہ ہم ابھی 50 یا 60 کی دہائی تک نہیں پہنچے مگر نفرتوں پر کافی حد تک قابو پایا ہے ، اس وقت شہر میں 55 سے 60سینما ہواکرتے تھے، اب کروڑ وں عوام ہے اور سینما کم ، کتابوں کی دوکانیں ٹوٹی ہوئی ہیں، انہوں نے کہاکہ جو بزرگ دنیا سے چلے گئے مشتاق یوسفی، اسلم فرخی، جالب صاحب ہم نے سب کی جوتیاں سیدھی کی ہیں اور اب بھی کرتے ہیں، تہذیبی تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے یہ اردو کانفرنس ہو رہی ہے۔ کانفرنس میں کراچی کی تاریخ، اس کے مصور، موسیقار، گلوکار، ادب، نظم و غزل گو شعرائ، نقاد، فکشن رائٹر، چائے خانے، باغات، سینما سمیت کئی اہم شخصیات اور تاریخی مقامات پر گفتگو کی جائے گی۔

احمد شاہ نے کہاکہ دس ہزار سے زیادہ نوجوانوں نے کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنی رجسٹریشن کو یقینی بنا یا ہے، میڈیا کا شکر گزار ہوں جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستانی ادب پھیل رہا ہے۔

معروف مزاح نگار انور مقصود نے کہاکہ اردو زبان لشکری زبان ہے، اس بار کانفرنس میں بہت سے فنکاروں کو مدعو کیا گیا ہے، فنکاروں کو مدعو کرنے کا مقصد ہے کہ اردو کانفرنس سے کچھ سیکھیں اور تلفظ ٹھیک کریں، احمد شاہ چھ مہینے سے ٹھیک سے سوئے نہیں، کامیاب پروگرامز کا انعقاد صرف احمد شاہ کرسکتے ہیں، روز آرٹس کونسل میں کچھ نہ کچھ ہورہاہے ، ورلڈ کلچر فیسٹیول کی کامیابی کے بعد عوامی تھیٹر فیسٹیول اور اب عالمی اردو کانفرنس بھی کامیابی سے منعقد ہو گی، کانفرنس میں دو مشاعرے ہیں، ملکی حالات جیسے بھی ہوں کانفرنس کامیاب ہو گی، جو لوگ کانفرنس کے انعقاد پر سوال اٹھاتے ہیں وہ دراصل حسد کا شکار ہیں، انہیں حسد ہے کہ اس عمارت میں ہر پروگرام کامیاب کیسے ہو جاتا ہے۔

معروف شاعر افتخار عارف نے کہاکہ مجھے دنیا کے مختلف ملکوں میں رہنے کا اتفاق ہوا پوری دنیا میں ادیبوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے، ہر کوئی پیسہ کمانے میں لگانے ہوا ہے، ایسے میں فنون لطیفہ کو معتبر بنانابہت مشکل کام ہے اور احمد شاہ یہ کام کررہے ہیں، اگر آدمی کو تہذیبی بنانا ہے تو آپ کو فن کی طرف آنا پڑے گا ، دنیا میں کوئی ایسا اداراہ نہیں کہ جہاں فنون پر اتنے بڑے پیمانے پر کا م ہوتا ہو، میں شروع دن سے آرٹس کونسل کا کام دیکھتا آرہا ہوں، یہ شہر اپنی منفی رحجانات کی وجہ سے مشہور تھا ، ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ تضاد ہوتا ہے، یہ اردو عالمی کانفرنس ہے ، اس میں تمام بڑے لوگوں کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دئیے جاتے ہیں، ہمارے ملک میں چھہتر زبانیں بولی جاتی ہیں، جو انسان اپنی مادری زبان سے محبت کرتا ہو وہ کیسے کسی کی مادری زبان سے نفرت کر سکتا ہے ، منافقت اور حسد کو کم کرنے کی ضرورت ہے، آپ یہ دیکھیں کہ ہر کانفرنس دوسری کانفرنس سے الگ ہوتی ہے ، پاکستان ہمارے لیے اولین ترجیح ہے ، میں اگر کہوں کہ میں سندھی ہوں یا اردو ہوں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں پاکستانی نہیں ہوں ، بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو آن لائن کتابیں خریدتے ہیں زیادہ تر لوگ فیسٹیول میں جا کر کتابیں لیتے ہیں ، آرٹس کونسل کہ وجہ سے ملک کے تمام شہروں میں کام ہوتا ہے ، ویسے تو اس کا نام آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی ہے لیکن انہوں نے پوری دنیا میں نام کمایا ہے، میں آرٹس کونسل احمد شاہ اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔

معروف لکھاری و جوائنٹ سیکرٹری آرٹس کونسل کراچی نور الہدی شاہ نے کہاکہ احمد شاہ تسلسل سے اردو کانفرنس کرتے آ رہے ہیں جو کہ قابل ستائش اقدام ہے، ہم سب کے دلوں میں بہت کچھ ہوتا ہے، ہم سماج سے متفق نہیں ہوتے ، ہمارے دل کا علاج ادب اور فن میں ہے، اس علاج کو احمد شاہ نے آرٹس کونسل میں جاری رکھا ہوا ہے، سوال کیا گیا کہ فنکار اس بار کانفرنس کا بڑا حصہ ہیں، جواب یہ ہے کہ ڈرامے فلم میں گفتگو کا معیار ٹھیک نہیں، ہمارا ادب سے آرٹ کا تعلق قطع کر دیا گیا ہے، کانفرنس میں یہ نئی چیز ہونے جا رہی ہے، کراچی سندھ کا دل ہے، اس دھڑکتے دل میں بنیادی دھڑکن احمد شاہ نے فنون لطیفہ سے جاری رکھی ہوئی ہے جسے دھڑکتا رہنا چاہیے۔

سترھویں عالمی اردو کانفرنس میںجشن کراچی کے پہلے روز افتتاحی اجلاس کے بعد ”میں ہوں کراچی ۔انور مقصود“ پر سیشن ہوگا جس میں تابش ہاشمی اور وسیم بادامی بھی شامل ہوں گے۔

دوسرے روز کا آغاز اردو نظم میں کراچی کا حصہ سے کیا جائے گا جس کے بعد تقدیسی ادب کے روشن چراغ، دنیا بدلتی خواتین، کتابوں کی رونمائی، کے ایم سی 1843سے 2024ءتک، بچوں کا ادب، عارفہ سیدہ زہرا کے ساتھ، سرائیکی ثقافت و ادب، Governance for People`s Empowerment، نئی نسل کی نمائندہ آوازیں۔عمیر نجمی۔عمران عامی، جاوید صدیقی کے خاکوں کا مجموعہ ”میرے محترم“، پاکستانی میڈیا، بین الاقوامی میڈیا کے تناظر میں، کراچی: کل اور آج، پختون ثقافت و ادب، میں ہوں کراچی ۔عاصم اظہر، ہمایوں سعید، ماہرہ خان اور عالمی مشاعرہ ہوگا۔

تیسرے روز اسلوبِ غزل، اردو تنقید، یارک شائر ادبی فورم، آبادی کی ناقص منصوبہ بندی، پاکستان کے لیے خطرہ، جاپان: اردو کی زرخیز سرزمین، یادِ رفتگاں، ماحولیات اور گلوبل وارمنگ، اردو کی نئی بستیاں، بلوچی ثقافت و ادب، پاکستان اور ترکیہ کے ثقافتی و تجارتی رشتے، کراچی کے نامور مصور، وہ کہیں اور سناکرے کوئی، پنجابی ادب و ثقافت، میں ہوں کراچی ۔ لیجنڈ ندیم بیگ، منور سعید مصطفی قریشی کے ساتھ ، مستنصر حسین تارڑ سے ملاقات، عرض کیا ہے۔ یوسف بشیر قریشی، تھیٹر، ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی کہانی، پاکستان میں میڈیا کی تاریخ، تقریب رونمائی دستانِ لکھنؤ اور دبستانِ لکھنؤ، سلمان گیلانی کے ساتھ ، میں ہوں کراچی۔لیونگ لیجنڈ شاہد آفریدی پر سیشن اور اختتام عالمی مشاعرے پر ہوگا۔

کانفرنس کے آخری روز اردو فکشن، ترقی پسند تحریک اور کراچی، ولایتی بیٹھک، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کی دوستی، اردو فارسی کے رنگ، معیشت کی شہ رگ:کراچی، کراچی کے مزاح نگار :پڑھنت نصرت علی۱ نذر الحسن، Artificial Intelligence & Digital Humanities، تعلیم کی صورتحال، سندھی زبان و ادب، نئی نسل کی نمائندہ آوازیں۔ علی زریون۔ فریحہ نقوی، شہر نامہ، ہم ادب کا نوبل انعام جیت سکتے ہیں، میں ہوں کراچی میں بشریٰ انصاری، فہد مصطفی کے ساتھ سیشن کے بعد اختتامی اجلاس ہوگا، آخر میں قوالی ہوگی جس میں فرید ایاز اور ابو محمد قوال پرفارم کریں گے۔