یہ ایک حقیقت ہے اور صد فی صد سچائی پر مبنی حقیقت ہے کہ اہل غزہ پر دجال وقت اسرائیل کے بے محابہ مظالم کے طول طویل سلسلے گو ختم نہ ہوتے ہوئے دیکھ کر ہر صاحب دل ہی ستم رسیدہ فلسطینیوں کی بے کسی، بے کسی اور مظلومیت پر خون کے آنسو روتا ہے۔ ایسے میں مسلم ممالک کے بے حس، بزدل ترین اور اقتدار کے حریص حکمرانوں کی اس حوالے سے کامل بے اعتنائی بلکہ ان کا تجاہل عارفانہ دیکھ کر ہر صاحب دل کے جذبات میں ان کے خلاف جو غم اور غصے کا جذبہ جنم لیتا ہے۔ وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ معصوم کمسن فلسطینی بچوں، مرد و خواتین اور نوجوانوں کے لاشے، دیکھ کر بھی رُوح کانپ اُٹھتی ہے اور جو مستضعفین مرتبہ شہادت پانے سے بچ رہے ہیں انہیں بھی شدید زخمی، معذور، بے یارومددگار، بھوک اور پیاس سے یا درد و کرب سے تڑپتے، بلکتے اور سلگتے دیکھ کر دل زندگی اور اس کی دل چسپیوں سے سرپرستوں کی یکسر اُچاٹ سا ہونے لگتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل اس برطانیہ اور شیطان بزرگ امریکا کی اہل فلسطین کے خلاف مظالم اور چیرہ دستوں نے چنگیز، ہٹلر، ہلاکو سمیت ماضی کے تمام ظلم ڈھانے والے ستم گروں کے ستم کو بھی ایک طرح سے مات دے دی ہے۔
ہم بظاہر تو ایک جدید، ترقی یافتہ سائنسی اور مہذب دنیا میں سانس لے رہے ہیں، لیکن اہل فلسطین پر ڈھائے جانے والے بدترین مظالم سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم دراصل ہزاروں سال پہلے کے دورِ وحشت میں زندہ ہیں۔ اہل غزہ پر اسرائیل کے بے حساب مظالم کا دراز ہوتا ہوا یہ مذموم سلسلہ دیکھ کر اہل دنیا کا ایک طرح سے انسانیت اور انسانی اقدار پر سے اعتماد و اعتبار ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مظلوم فلسطینی بچوں اور مرد و خواتین کو یوں بے کسی اور بے بسی کے عالم میں اسرائیلی مظالم کا شکار ہوتے دیکھ کر اپنے بچوں، رشتے داروں اور دوست احباب کی تصویریں آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہیں اور دل انہیں دیکھ کر تڑپ تڑپ سا اُٹھتا ہے اور ایسے میں دل سے ان کی بے بسی اور مظلومیت کے پیش نظر ایک ایسی ہوک اٹھتی ہے جو بظاہر تو دکھائی نہیں دیتی تاہم دل کہتا ہے کہ ان شاء اللہ! وہ عرش الٰہی تک ضرور ہی پہنچتی ہوگی۔ یہ ایک تلخ ترین حقیقت اور بہت بڑا المیہ ہے کہ اسرائیل کو مذموم مظالم کا سلسلہ جاری رکھنے میں مدد دینے والے اور اس کا اصل سرپرست امریکا ہے جس کی مالی، اخلاقی، عملی معاونت اور ہتھیاروں اور (وہ بھی مہلک ترین) کی دیرینہ، لگاتار اور مسلسل فراہمی کی وجہ ہی سے اسرائیل اہل فلسطین پر بلا روک ٹوک ظلم کے پہاڑ توڑنے میں دن رات مصروف ہے۔ امریکا کے خبیث الفطرت حکمران جس بے رحمانہ انداز میں جانور صفت وحشی اسرائیلی حکمرانوں کی اعلانیہ اور کھلے عام ہر طرح سے سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے میں عرصہ دراز سے لگے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلامی ممالک کے حکمران غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے کم از کم اپنے ہاں تعینات امریکی سفرا کو تو ملک چھوڑنے کا حکم تو دے ہی ڈالتے لیکن افسوس صد افسوس: ’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘
چند دن پیش تر سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل ارکان نے جب غزہ جنگ بندی کے لیے ایک قرارداد پیش کی، جس میں مطالبہ یہ کیا گیا تھا کہ تیرہ ماہ سے جاری اس جنگ کو فوری اور غیر مشروط طور پر بند کیا جائے تو مستقل اور غیر مستقل 14 ارکان نے تو مذکورہ قرار داد کے حق میں جبکہ واحد اور تن تنہا امریکا کے نمائندے رابرٹ ووڈ نے حسب ِ روایت، حسب ِ معمول، اپنا مکروہ اور گھنائونا کردار نبھاتے ہوئے بڑی ڈھٹائی، بے شرمی اور بے غیرتی کے ساتھ اسے ویٹو کردیا۔ یہ ہے نام نہاد تہذیب، انسانی حقوق کے علمبردار کی فطرت، کریہہ المزاج امریکی حکمرانوں کا اصل غلیظ چہرہ۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ ایک طرف تو امریکا غزہ میں جنگ بندی کی مخالفت کررہا ہے تو دوسری جانب اس کی طرف سے اسرائیل کو مہلک ترین خطرناک ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق امریکا اسرائیل کے دفاعی سازو سامان کی 69 فی صد ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اسے اہل فلسطین پر اپنے ظلم کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رکھنے کے لیے اربوں ڈالر کی امداد بھی دے رہا ہے۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جسے امریکا نے اپنے جدید ترین ایف 35 لڑاکا جہاز فروخت کیے ہیں۔ معاہدے میں شامل 75 میں سے 36 جہاز اسرائیل کو دے بھی دیے گئے ہیں۔
یہ چوتھی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکا نے غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد کو ویٹو کیا ہے اور اسلامی ممالک کے غیرت و حمیت سے عاری حکمرانوں میں سے کسی کو بھی اس پر امریکا کی مذمت تک کرنے کی جسارت نہیں ہوسکی ہے۔ البتہ! ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جانب سے اس پر اظہار افسوس ضرور کیا گیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق غزہ میں 19 ہزار کے قریب معصوم کمسن بچے جرم بے گناہی میں شہید اور بے شمار شدید زخمی اور معذور ہوچکے ہیں۔ غزہ میں زخمیوں کے بدن میں عالمی ادارہ صحت کے کیڑے پڑنے اور ضد حیوی ادویات (ایٹمی بائیوٹیک) کی عدم دستیابی اور ان کے غیر موثر ہونے کی بھی ہولناک خبر دی ہے۔ بین الاقوامی موقر اطلاعات کی فراہمی کے اداروں کے مطابق غزہ میں بے گناہ شہید ہونے والے مرد و خواتین اور نوجوانوں کی تعداد 50 ہزار سے بھی دراصل زائد ہے جس میں آئے دن بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ نے بجاطور پر غزہ کو ہزاروں بچوں کا قبرستان قرار دیا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کی ایک المنارک رپورٹ کے مطابق غزہ میں تاحال 917 شیرخوار ایک تا 3 سال عمر کے 2 ہزار سے زائد بچے، 4 تا 5 برس کے 1500 سے زائد بچے، 6 تا 12 برس کی عمر کے 5 ہزار سے بھی زیادہ اور 13 تا 17 برس کے بھی 5 ہزار سے زیادہ بچے بے رحمانہ اسرائیلی بمباری شہید ہوچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہر چند منٹ کے بعد ایک بچہ شہید اور اسرائیلی حملوں میں روزانہ 10 بچوں کی ٹانگیں ضائع ہورہی ہیں، جبکہ تاحال 21 ہزار سے زائد بچے اور بچیاں یتیم ہوگئے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ مرد اور خواتین شدید زخمی اور علاج کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ دن رات اسرائیلی بمباری کی وجہ سے درجنوں بے گناہ افراد کی شہادتوں، زخمی اور معذور ہونے کا سلسلہ بتدریج بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ 23 لاکھ کی آبادی میں سے اکثریت بے گھر اور دربدر ہوچکی ہے۔
غزہ میں اہل فلسطین کی ہولناک، بے رحمانہ نسل کشی پر اسرائیل کا دست جفا کیش توڑنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ اسرائیل نے اسپتالوں، ایمبولینسوں، مہاجرین کے کیمپوں، گھروں، تعلیمی اداروں غرض یہ کہ ہر مقام ہی کو تباہی سے دوچار کردیا ہے۔ جنگی ہولناک جرائم کے مرتکب اسرائیل کو عالمی ادارے اور اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی تاحال لگام نہیں دے سکا ہے۔ ہاں! اقوام متحدہ نے بڑی بے بسی کے عالم میں یہ اپیل ضرور کی ہے کہ غزہ میں 50 ہزار سے زیادہ زخمی بچوں کے علاج اور 50 ہزار ہی سے زیادہ شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کے لیے امداد بہم پہنچائی جائے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں 5 برس سے کم عمر 3 لاکھ46 ہزار بچے اور 1 لاکھ 60 ہزار حاملہ اور اپنے بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔ اسرائیل کی حکومت کے درندہ صفت پاگل وزیراعظم نیتن یاہو دراصل معصوم بچوں کے بہت بڑے قاتل کے طور پر تاابد تاریخ انسانیت میں دائمی لعنت کے سزاوار قرار پائیں گے اور اس میں حصہ بقدرِ جثہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسلامی ممالک کے بے حسن، بے حمیت حکمرانوں کو بھی ملے گا۔ ان شاء اللہ۔ لبنان کی وزارتِ صحت کے مطابق حزب اللہ کے ساتھ لڑائی میں اسرائیل کی بمباری سے 4 ہزار سے زائد بے گناہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ جبکہ یونیسیف کی اطلاع ہے کہ اسرائیلی بمباری سے تقریباً 4 سو معصوم بچے شہید ہوئے ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ اسرائیل کو ان شاء اللہ اپنے سرپرستوں سمیت ذلت اور رسوائی مل کر رہے گی اور اسلامی ممالک کے بے حمیت حکمرانوں کو بھی بالآخر اس بزدلی کی وجہ سے ایک دن روز بد دیکھنا پڑے گا۔