سانحات: حقائق سے پردہ کب اٹھے گا؟؟

144

ملک میں روز اوّل سے پراسراریت کے دبیز بادل چھائے ہوئے ہیں جو حقیقت کو آشکار نہیں ہونے دیتے حکمرانوں سے لے کر عوام تک کا خون اس پردے کی اوٹ میں چھپا رہ جاتا ہے کہ ’’پردہ اُٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا‘‘۔ بھلا کوئی بتلائے کہ سردی کے موسم میں بغیر کسی مکمل تیاری کے صرف ٹرمپ کے منتخب ہونے کی خوشی میں اسلام آباد جمپ لگانے اور کارکنوں کو اپنی سیاست پر جاں بحق اور زخمی کروانے میں کیا اسرار تھا۔ اب پراسراریت یہ ہے کہ ہلاک ہوئے کتنے ہیں؟ حکومتی دعوے کچھ اور بتا رہے ہیں تو تحریک انصاف والے بہت زیادہ بتا رہے ہیں۔ معروف صحافی مطیع اللہ سچ کی تلاش میں اسپتال پہنچے تو ان پر ’’آئس‘‘ کی ایف آئی آر درج کرکے اس سچ کے نشہ کو یوں جھوٹ سے بدل دیا۔

یہ چھپن چھپائی کا کھیل کوئی آج کا نہیں۔ وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو ایک گولی تو سامنے سے لگی، قاتل قرار دے کر ایک افغانی قتل کردیا گیا مگر وزیراعظم کے ورثا کے بقول ایک اور گولی پشت پر بھی لگی تھی وہ کس نے ماری اس ہائی پروفائل قتل کی انکوائری مکمل کرنے والے سربراہ کا طیارہ جو فائل اور سربراہ سمیت محو پرواز تھا حادثے کا شکار ہو کر دریا برد ہوگیا۔ اب بھی افغانی دھرنے میں ملوث ہیں کا راگ اسی طرح کا ہے۔ ہاں پھر محترمہ فاطمہ جناح جو بانی پاکستان کی بہن تھیں وہ پراسرار طور پر ہلاک ہوئیں تو ایک معروف قانون دان نے انٹرویو میں بتایا کہ ان کے گلے پر انگلیوں کے نشان تھے گلا گھونٹا گیا اُن کا قتل کس نے کیا کس نے کروایا۔ یہ بھی معلوم کہ تو کچھ تو تھا؟ قوم لاعلم رہی بلکہ رکھی گئی وہ مادر ملت تھیں۔ لیاقت علی خان قائد ملت تھے اور ملت ان کے قاتل سے بے خبر رہی۔

پھر یوں ہی ضیا الحق کی جو صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے ان کو پوری ٹیم کے ساتھ طیارہ فضا میں اڑا کر سب کو شہادت کا جام پلا دیا گیا مگر قاتل کا اسرار اب تک ہے جو آستینوں میں چھپے بتائے جاتے ہیں۔ بس اللہ کی رضا اور صبر کا گھونٹ اُن کے گھرانے اور ان کے پرستاروں کو پلا دیا گیا یوں ہی بے نظیر بھٹو جو لیاقت باغ میں جلسہ بھرپور کرنے کی جسارت کر بیٹھیں تو سانحہ لیاقت باغ لیاقت علی خان والی کہانی پھر دہرائی گئی ان کو قتل کرکے راستہ صاف کردیا تھا۔ یہ قتل کس کی منشا سے کس نے کیا یہ راز بھی سربستہ رہا حتیٰ کہ اُن کے شوہر صدر پاکستان بنے اور ہیں مگر وہ بھی اس کی اسراریت سے پردہ نہ اٹھا سکے بلکہ ایک جملہ ان سے منسوب بتایا جاتا ہے کہ مجھے بھی مروائو گے کیا؟ اور یوں سانحہ حیدر آباد پکا قلعہ جس میں سیکڑوں بے گناہوں کا قتل عام ہوا۔ بچے، جوان، بوڑھے اندھا دھند فائرنگ سے ہلاک کیے گئے پھر کراچی میں اسی قسم کی خون ریز کارروائی ہوئی یہ کس کے اشارہ پر ہوئی اور نصرت مرزا جو معروف صحافی ہیں وہ کس پر الزام دھرتے ہیں؟ یہ سب کچھ پُراسرار ہے۔

مسیحا ملک و قوم حکیم محمد سعید جو گورنر سندھ بھی رہے ان کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہ تھی مگر اس شہادت کے پیچھے ہاتھ کے دستانے اس کو چھپائے ہوئے ہیں۔ محمد صلاح الدین جو معروف صحافی تھے کی شہادت گہہ الف میں قدم رکھنا ہے کی اوٹ میں چھپی ہوئی ہے۔ گاجر مولی کی طرح کٹے پٹے اعضا کی لاشیں کون گرا رہا ہے۔ عطا اللہ مینگل کے صاحبزادے کی لاش گمشدگی کا ذمے دار کون تھا۔ عدل جو شہادتوں کی رٹ میں چھپا بتایا جاتا ہے وہ روز روشن ہونے والی وارداتوں کے راز اور محرکات، قاتلوں کی نشاندہی سے گریزاں ہونے کا اسرار کیا ہے وہ کیا اور کس بات سے خائف ہے کہ پردہ اٹھ گیا تو راز کھل جائے گا۔ اور جان تو سب کو پیاری ہے۔

سانحہ اسلام آباد پر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم نے اس کو حکومت کی فسطائیت قرار دیا اور کہا کہ جو کچھ ہوا ان حقائق کو عوام سے چھپایا جارہا ہے۔ آزادی اظہار پر شب خون مارا جارہا ہے پرامن احتجاج اور معلومات تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہے یہ بیان سو فی صد درست ہے جب کہ ملک کی بنیادی پالیسی چھپی چھپائی اور پراسرار ہو تو پھر عوام کو اندھیرے ٹامک ٹوئیاں مارنے اور دشمنوں کو جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے کا خوب موقع ملتا ہے۔ عوامی رائے کا پراسرار مگر عیاں قتل عام فارم 47 کے ذریعے کرکے حکومت سازی کی پراسراریت کا پھل 26 ویں آئینی ترمیم کی صورت کچھ تو نظر آیا مگر پردے کے پیچھے کیا کچھ چھپا ہوا ہے جب تک مٹی پائو، قدم آگے بڑھائو کی پالیسی رہے گی یوں ہی حکمران اور عوام کٹتے مرتے رہیں گے۔ یہ حقائق سے پردہ اٹھانے والا اور جھوٹوں کو رسوا کرنے والا دور کب آئے گا۔