علامہ اقبالؒ کی طرح عمران خان کے نام کی سڑک

224

یہ بات نہ تو میری سمجھ میں ابھی تک آسکی ہے اور شایدکچھ روز تک نہ بھی آسکے کہ کیونکہ اُس بڑی شخصیّت سے میری ملاقات کا دُور دُور تک امکان نہیں ہے جس نے بڑے بڑے لوگوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان میں کسی ایک سڑک کا نام عمران خان سے منسوب کردیا جائے۔ یہ تجویز پیش کرنے والی شخصیّت کون ہے اُس کا نام معید پیرزادہ سے معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ جوشِ جنوں کا مُنہ بولتا ثبوت نہیں ہے کہ عمران خان خیر سے ابھی زندہ وتابندہ ہیں اور اُن کے نام پر کسی سڑک کا نام رکھنے کی تجویز دی جارہی ہے کیونکہ اب تک یہ روایت رہی ہے کہ کسی عمارت، جگہ یا کسی سڑک کا نام کسی زندہ شخصیّت کے نام پر نہیں رکھا جاتا ہے۔ یہ اصول اِس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ اِس وقت کا ہِیرو آگے چل کر کرپشن، ڈکیتی یا قتل کا ارتکاب کرکے بدنامی مول لے سکتا ہے۔

معید پیرزادہ نے اپنے ویڈیو لاگ کے ذریعے یہ ناقابل ِ یقین اور تشویشناک بیان دیا ہے کہ ایک نامِ نہاد حسّاس ادارے کے ایک بڑے افسر نے اپنے ماتحت افسران اور دیگر سامعین سے خطاب کرتے ہوئے پہلے تو کھنکار کر اپنا گلاصاف کیا (کہتے ہیں کہ حلق میں اٹکے ہوئے الفاظ کو اپنی زبان پر لانے کے لیے یہ عمل کیا جاتا ہے ) بہرکیف! مقرِّر نے کھنکارنے کے بعد فرمایا کہ عمران خان کی اگر ڈیتھ ہوگئی، ڈیتھ ہوجائے تو ردِّعمل کے طَور پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ یہ سوال سن کر وہاں خاموشی سی طاری ہوگئی اور وہاں موجود تمام ہی لوگ شاک میں آگئے اور اُنہیں جھٹکا سا لگنے کے باعث تمام کے تمام لوگ ہکّا بکّا رہ گئے اور حیران ہوکر اپنے مخاطب کی شکل دیکھنے لگے اور یہ جاننے کی کوشش کرنے لگے کہ اُن کا بڑا افسر آخرکہنا کیا چاہتا ہے اور وہ کرنا کیا چاہتا ہے۔ سامعین کو خاموش دیکھ کر افسر نے اپنا گلا ایک بار پھر صاف کیا اور کہنے لگا کہ عمران خان نے چونکہ کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں چنانچہ علامہ اقبال، قائد ِاعظم، ایم اے جناح یا سرسیّد کے ناموں پر رکھی جانی والی سڑکوں کی طرح عمران خان کے نام پر بھی کسی ایک سڑک کا نام رکھ دیا جائے۔ اُس مقرِّر نے آگے چل کر یہ بھی کہا کہ اِس مسئلے کو حل یا تحلیل ہونے میں ایک ڈیڑھ مہینہ لگے گا۔

یہ بیان تو تھا معید پیرزادہ صاحب کی طرف سے۔ میرا سوال یہ ہے کہ تجویز کنندہ نے بات ادھوری کیوں چھوڑدی، اُس نے یہ کیوں نہیں بتلایا کہ عمران خان کی سیاسی کامیابیاں کیا ہیں اور اُنہوں نے پاکستان میں سماجی کارگزاری کے حوالے سے کیا کچھ خدمات سرانجام دی ہیں۔ اُن کے نام کی کوئی ایک گلی ہونی چاہیے یا کسی ایک سڑک کو اُن کے نام سے منسوب کیا جانا چاہیے یا کوئی نئی شاہراہ بناکر اُس کا نام ’شارع عمران‘ رکھ دیا جائے۔ موصوف مقرِّر کو پہلے تو عمران خان کی خدمات اور اُن کی کامیابیوں کا جائزہ لینے کی ہدایت کرنی چاہیے پھر سڑک کا نام تجویز کرنے کا حکم نامہ جاری کرنا چاہیے۔

سڑک یا شاہراہ کا نام رکھنے کی تجویز یا خیال تو ایک حیلہ یا ملمع تھا۔ میرے خیال میں اُس بڑے افسرنے اپنے ماتحتوں کے سامنے یہ سوال رکھ کر یہ جائزہ لینے کی کوشش کی تھی کہ اُس کے اہم ادارے کے کسی گوشے میں عمران خان کے لیے کوئی ہمدردی پوشیدہ تو نہیں ہے۔ بیان کرنے اور سننے والی جگہ کا ماحول اور اُس کا نقشہ معید پیرزادہ نے اپنے بیان میں کھینچا ہے پھر تو اِس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اُستاد کے سوال اور جواب سے کوئی ایک بھی شاگرد متّفق نظر نہیں آیا ہے۔

عمران خان کو اَللہ تعالیٰ اچھی صحت کے ساتھ ہمارے درمیان رکھے تاکہ وہ القادر یونیورسٹی، نمل یونیورسٹی اور شہر شہر اسپتالوں کی تعمیرات کرتے ہوئے نظر آتے رہیں۔ میری معلومات کے مطابق عمران خان نے صرف مُلک وملّت کی فلاح وبہبود کے لیے ہی کام نہیں کیا ہے۔ وہ تو انصاف کے پیمانوں کو متوازن رکھنے کے لیے بَین الاقوامی سطح پر بھی نمایاں نظر آتا ہے۔

اربابِ حلّ واقتدار کاش اپنی فہم وفراست کو بروئے کار لاکر یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ حکومت کی مخالفت اور مُلک کی مخالفت میں بہت فرق ہے۔ مُلک تو مکان کی مانند ہے پھر اپنے مُلک کی مخالفت کوئی احمق ہی کرسکتا ہے۔ یہ تو نہیں کہنا چاہیے کہ پاکستانی قوم کی قسمت ہی خراب ہے جس کے باعث یہاں فلاحی طرز کی کوئی حکومت اب تک قائم نہ ہوسکی۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم جب اپنی آنکھیں بند کرکے کسی چیز کو اُٹھانے کی کوشش کریں گے تو ہمارے ہاتھ کسی اچھی چیز کے ہاتھ لگنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ انتخابات کے انعقاد پر ہمارے سامنے سیندُور اور غازہ لگا کر جو کوئی بھی آجاتا یا آجاتی ہے ہم اُس پر ریجھ جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے بدن پر تو بظاہر ریشمی لباس نظر آتا ہے لیکن ہماری کھال غائب ہوچکی ہوتی ہے۔ پہلے کے حکمران تو صرف ہماری کھالیں ہی کھینچ کر اپنا کام چلالیتے تھے اب کے حکمران تو ہماری ہڈّیوں کو بھی توڑ کر کھالینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔

حکمران ذرا ہمّت کریں اور اپنے ہم خیال میڈیا کو شہر اور مضافات میں بھیج کر یہ معلومات کرکے عوام کو دکھلائیں کہ اُن کی تعریف کرنے والوں کی تعداد کیا ہے اور اُنہیں گالیاں دینے والے کتنے ہیں۔ میری یہ رائے ہے کہ پرنٹ میڈیا سے یہ خدمات حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ وہ ۷ فروری ۲۰۲۴ء کو نوازشریف کے وزیر ِ اعظم بن جانے کی اطلاع دے چکے تھے جو سراسر جھوٹ پر مبنی تھا۔