وطنِ عزیز میں سب کچھ اچھا دکھایا جارہا ہے لیکن کچھ اچھا نہیں ہے۔ ملک ایک بڑے بحران کی لپیٹ میں ہے، جہاں داخلی بدامنی اور بیرونی سازشوں نے ریاست کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کے حالیہ بیانات نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ خیبر پختون خوا کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں، اور ان کے پیچھے وہ عناصر ہیں جو ملک کی جغرافیائی سالمیت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ افغان سرحد کے پار سے دہشت گردوں کی دراندازی اور ملک کے اندرونی معاملات میں اُن کی بڑھتی ہوئی مداخلت اچانک ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ یہ وہ سرحدیں تھیں جہاں ماضی میں سیکورٹی فورسز کی بھی ضرورت نہیں ہوتی تھی، اور یہ کبھی خطرے کا سبب نہیں رہیں، لیکن اب ہم نئے نئے دشمن بنا چکے ہیں۔ وزیر دفاع کے مطابق، شدت پسند گروہ سرحد عبور کرکے خیبر پختون خوا میں حملے کررہے ہیں، جبکہ پاراچنار جیسے علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوششیں بھی عروج پر ہیں۔ اس صورتِ حال میں صوبائی حکومت کی خاموشی اور عدم فعالیت نے خطرے کو مزید بڑھا دیا ہے۔ بلوچستان جیسے حساس صوبے میں بغاوت کے آثار، اور اس کے ساتھ بھارت جیسے دشمن ملک کی مسلسل مداخلت پاکستان کو دوبارہ 1971ء کے حالات کی یاد دلا رہی ہے۔ اب حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ، خاص طور پر سی پیک منصوبے سے منسلک افراد، سیکورٹی چیک پوسٹوں، اور کوئلہ کانوں میں مزدوروں پر حملے نہ صرف صوبائی بلکہ ملکی استحکام کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ یہ حملے بتارہے ہیں کہ دشمن قوتیں پاکستان کو برباد کرنے اور سب کچھ سبوتاژ کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں سیکورٹی فورسز نے خیبر پختون خوا اور پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں۔ بنوں اور ضلع خیبر میں ہونے والی کارروائیوں کے دوران 8 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کی جرأت کیسے بڑھ گئی؟ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کے ان حملوں کو روکنے میں ناکام کیوں ہورہی ہیں؟ کیا ہمارے پاس دشمن کی سرگرمیوں کا پیشگی علم نہیں؟ یا پھر ریاستی ادارے اپنی توجہ سیاسی معاملات پر مرکوز کیے ہوئے ہیں؟ سیکورٹی چیلنجز کے باوجود اداروں کی یہ غفلت قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ 1971ء میں بھی بیرونی مداخلت، داخلی انتشار، سیاسی قیادت کی ناکامی اور دشمن کے عزائم کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے شدید نقصان اٹھانا پڑا اور ہمارا مشرقی بازو ہم سے الگ ہوگیا۔ آج بھی دشمن، خاص طور پر بھارت، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ اس وقت سیاسی میدان میں بھی صورتِ حال بہت خراب ہے۔ گورنر راج کے نفاذ سے متعلق وزرا کے دھکی آمیز بیان پر خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ کی جانب سے دھمکی آمیز بیانات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ یہ بیانات اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ سیاسی قیادت اور ملک کے کرتا دھرتا حالات کو یا تو سمجھ نہیں رہے، یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ ان حالات نے ملک کو غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے، لوگ نہیں جانتے آنے والے وقت میں کیا ہونے والا ہے، ہاں وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ ماضی میں ’سب اچھا‘ کہہ کر اس ملک کے دو ٹکڑے کیے جاچکے ہیں، اور آج بھی دو صوبے شورش کی لپیٹ میں ہیں، اور دشمن اپنی سازشوں میں مصروف ہے۔ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے ہم نے بھلادیا ہے اور کوشش ہے کہ قوم بھی بھول جائے۔ یہ ریاست وقت کی سپرپاور اور اکثریتی قوم سے لڑ کر حاصل کی گئی، اور قیامِ پاکستان کی تحریک نے صرف سات سال میں ایک آزاد ملک کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا۔ مگر وہی تاریخی ریاست 24 سال بعد دولخت ہوگئی، اور آج ہم پھر اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ اس وقت ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ داخلی اختلافات اور سیاسی انتشار کو ختم کرنا ہوگا لیکن مفادات کی بنیاد پر نہیں کہ ’کچھ تم لے لو اور کچھ ہم لے لیں‘… بلکہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے سب سے پہلے اپنی پھیلائی ہوئی سیاسی و غیر سیاسی آلائشوں کو صاف کرنا ہوگا۔ سیکورٹی اداروں کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی اور ساتھ ہی اپنا اصل کام کرنا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کی ہر سازش ناکام بنائی جا سکے۔ ریاست کی بقا کے لیے کام کرنا ہوگا، ورنہ تاریخ ایک بار پھر ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ اگر ہم نے فوری طور پر قومی سلامتی کے چیلنجز پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہ کیے تو آنے والے دن مزید مشکلات اور خطرات لے کر آئیں گے۔ قوم کے تمام طبقات بشمول عوام، سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو یکجا ہوکر پاکستان کو ان اندھیروں سے نکالنے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، تو شاید تاریخ ہمیں دوبارہ وہی تلخ سبق دے جو ہم 1971ء میں بھول چکے تھے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سمت درست کریں۔