روس،یوکرین لڑائی تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوچکی ،یورپ تیاری کررہا ہے

137

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) روس ،یوکرین لڑائی تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو چکی ‘یورپ تیاری کررہاہے‘ صیہونی ریاست کو مسلم ممالک پر قبضہ کرنے کا موقع ملے گا‘ ٹرمپ کابینہ میں شامل اراکین کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ روس،یوکرین اوراسرائیل،غزہ جنگ کاجلد خاتمہ ممکن ہے‘روس کیخلاف جنگ میں یو کرین امریکی ، ناٹو امداد پر زندہ ہے‘ یورپ کو امریکا کی کرائی گئی تحفظ کی یقین دہانی پر شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار سابق وزیر خزانہ خورشید محمود قصوری،صحافی ڈاکٹر علی اورسیکورٹی ماہر سید محمد علی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’روس یوکرین کی بڑھتی کشیدگی کیا تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتی ہے؟‘‘ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ روس یوکرین جنگ تیسری عالمی جنگ کا سبب بن نہیں رہی بلکہ بن چکی ہے ؟ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ جوہری اور غیر جوہری ملک کے درمیان پنجہ آزمائی سے شروع ہوئی ہے لیکن اب یہ جنگ اس قدر پھیل چکی ہے کہ پورا یورپ تیسری عالمی جنگ میں شامل ہونے کے لیے تیاری میں مصروف ہے‘ ٹرمپ کی کابینہ یہ بتا رہی ہے کہ اب یوکرین اور غزہ کی جنگ کا خاتمہ ناممکن ہے‘
اس کا ایک پہلو یہ بھی قابل توجہ ہے کہ اس لڑائی کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سیکورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کا نتیجہ اس بات پر اثر انداز ہو گا کہ جوہری ہتھیار رکھنے والے حریف ممالک دوسرے ممالک کے دفاع کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں‘ ایک اور عنصر یہ بھی ہے کہ امریکا کتنی خوش اسلوبی سے غیر جوہری اتحادیوں کو قائل کرتا ہے کہ امریکی قیادت میں انہیں ملنے والا تحفظ ان کے لیے کافی ہے‘ یہ درست ہے کہ امریکا نے خود ہی یوکرین کو ایٹمی میزائیل مارنے پر اُکسایا ہے اور اس کے جواب یا یوں کہہ لیں اپنے تحفظ میں روس نے یوکرین پر خوفناک میزائل داغے ہیں۔ ڈاکٹر علی نے کہا کہ اسرائیل اور امریکا دونوں ہی یہ کو شش کر رہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ کو شروع کیا جائے‘ تیسری عالمی جنگ کا فائدہ اسرائیل کو ہو گا اور اس جنگ کا نقصان اسلامی ممالک کو ہوگا‘ اسرائیل کو اسلامی ممالک پر قبضہ کرنے کا موقع ملے گا‘ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں بھی عالم کفر اور یہودیوں کو فائد ہوا تھا اور برسوں سے دنیا کے مختلف ممالک میں مارے مار ے پھرنے والی قوم یہودیوں کو ملک مل گیا‘ تیسری عالمی جنگ سے بھی یہی امکان ہے کہ ایشیا میں خاص طور پر 4 ممالک اپنی موجودہ یا ممکنہ ایٹمی قوت کے تناظر میں کسی حد تک اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں‘ ان میں شمالی کوریا، چین، روس اور ایران شامل ہیں‘ 3 ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں اور چوتھا حصول کے قریب تر ہے‘ بظاہر اس علاقے کے دوسرے ملکوں میں اندیشے اور وسوسے تو پیدا ہو رہے ہیں‘ یوکرین اور روس کی جنگ کی وجہ سے یورپی ممالک کو امریکا سے تحفظ کے بارے میں بتدریج شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ سید محمد علی نے کہا کہ تیسری عالمی جنگ جاری ہے‘ بس اعلان باقی ہے‘ کمزور ممالک یوکرین سے سبق حاصل کرنے پر غور کر رہے ہیں کہ ان کی باری کب آئے گی‘ خاص طور پر ایک ایسی صورت میں جب روس نے یوکرین کے بڑے حصّے پر قبضہ جما لیا ہے‘ اہم بات یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی یورپ، خلیج فارس اور ایشیا کے دیگر شراکت داروں کو کس حد تک قائل کر پا ئیں گے کہ وہ امریکا کے زیر قیادت جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی ڈھال پر اعتماد کریں اور خود کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ سے دور رکھیں‘ اب حالات یہ ہو چکے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس امریکی حریف پڑوسیوں کے بارے میں علاقے کے رہنما اپنے عوام سے کہہ سکتے ہیں کہ براہ کرم جوہری ہتھیاروں کے حصول کی حمایت کریں کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان حال بھی یوکرین جیسا ہوگا۔ 1980ء میں سوویت یونین کے پاس تقریباً 5 ہزار جوہری ہتھیار موجود تھے‘ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرین نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری ترک کردی‘ اس نے اقتصادی مدد اور مغرب کے ساتھ انضمام اور سلامتی کی یقین دہانیوں کا انتخاب کیا‘ اب یہی یو کرین امریکا اور ناٹو سے مدد طلب کرنے کی کوشش کر رہا اور وہاں کی عوام مرتی جاری ہے۔