پاکستان اسٹیل ملازمین کی داستانِ الم

143

پاکستان اسٹیل ملز ملک کا سب سے بڑا صنعتی منصوبہ، معیشت کا ایک اہم ستون، نہ صرف اسٹیل کی پیداوار کے لیے اہم تھا بلکہ ملک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، انجینئرنگ، اور صنعتوں کی ترقی کے لیے بھی کلیدی کردار ادا کرتا تھا۔ کراچی میں قائم 19,000 ایکڑ پر پھیلا ہوا یہ منصوبہ، اپنی پوری صلاحیت پر چلتے ہوئے، سالانہ 1.1 ملین ٹن پیداوار کا حامل تھا۔ اسٹیل ملز ملک میں تعمیراتی شعبے اور دیگر صنعتوں کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا تھا لیکن آج پیداواری سرگرمیوں سے محروم اور بحالی کا منتظر ہے۔

روس نے اسٹیل مل کی بحالی کی پیشکش کی ہے لیکن حکومت کا رویہ بحالی کے حوالے سے انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔ پاکستان اسٹیل 2008 تک اربوں روپے آپریشنل منافع میں تھا لیکن اس کے بعد نام نہاد جمہوری پارٹی پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد تیزی سے خسارے کا شکار ہوتا گیا، سیاسی مداخلت، بدانتظامی، کرپشن لوٹ مار اور حکومتی عدم توجہی کے باعث یہ ادارہ مالی بحران کا شکار ہوتا گیا۔ نواز لیگ کی حکومت آنے کے بعد 2015 میں اسٹیل ملز کی گیس سپلائی بند کرکے پیداواری سرگرمیاں بند کر دی گئی، پاکستان اسٹیل ملز کی پیداواری سرگرمیوں کی بندش کے باعث ملک کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا، ملکی تعمیراتی صنعت کو مقامی پیداوار کے بجائے مہنگے درآمدی اسٹیل پر انحصار کرنا پڑا۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے انصاف کی فراہمی، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، اور قومی اداروں کو بحال کرنے کے بڑے بڑے دعوے کیے تھے۔ لیکن 27 نومبر 2020 کو پاکستان اسٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین کی جبری برطرفی ان دعوؤں کے برعکس ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آئی،27 نومبر 2020 وہ دن ہے جب پاکستان اسٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین کو بغیر کسی پیشگی نوٹس کے غیر قانونی طور پر بیک جنبشِ قلم برطرف کر دیا گیا۔ یہ دن پاکستان کی صنعتی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، جو ریاست کی مزدور دشمن پالیسیوں اور نااہلی کو عیاں کرتا ہے۔

پاکستان اسٹیل کے ہزاروں برطرف اور حاضر سروس ملازمین اس وقت ایک سنگین قانونی اور انتظامی بحران کا شکار ہیں۔ سپریم کورٹ میں زیر سماعت افسران کے پروموشن کیس کے دوران چیف جسٹس کے ایک ریمارکس کو بنیاد بنا کر اسٹیل ملز سے ہزاروں ملازمین کو جبری بغیر کسی پیکیج دیے برطرف کر دیا گیا اور جب ان برطرف ملازمین نے ہائی کورٹ اور دیگر ماتحت عدالتوں سے اپنی بحالی کے لیے رجوع کیا تو ان کے کیسز یہ کہہ کر مسترد کر دیے گئے کہ ملازمین معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ جبکہ دوسری جانب موجودہ حاضر سروس ملازمین کی برطرفی کے پیشگی اجازت کے لیے اسٹیل ملز انتظامیہ کی جانب سے دائر کیس سندھ لیبر کورٹ میں زیر سماعت اور حتمی مرحلے میں ہے، ایک طرف ریٹرینج ملازمین کا کیس سپریم کورٹ کا بہانہ بناکر سننے سے انکار دوسری جانب انتظامیہ کے دائر کردہ درخواست کی مسلسل سماعت جاری! یہ دوہرا معیار قانون و انصاف کے عدالتی قتل کے مترادف ہے، جبکہ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ گزشتہ 4 سالوں میں ملازمین کو ریلیف فراہم کرنے اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ناکام ثابت ہوا ہے، سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس کے دوران سپریم کورٹ نے ریٹرنجمنٹ پالیسی کے معاملے پر ثالثی کا حکم دیا تھا اور مرحوم رشید رضوی کو ثالث مقرر کیا تھا لیکن انتظامیہ کی جانب سے عدم تعاون کی وجہ سے یہ عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ رشید رضوی کی وفات کے بعد سپریم کورٹ نے اب تک کوئی نیا ثالث بھی مقرر نہیں کیا، جس کے باعث ملازمین گزشتہ چار سالوں سے بحالی اور انصاف کے منتظر ہیں۔ سپریم کورٹ اور دیگر ماتحت عدالتوں کی جانب سے انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے باعث ملازمین مایوس اور پریشانی کا شکار ہیں، ملازمین کا چیف جسٹس سے سوال ہے کہ آخر کب انہیں انصاف ملے گا؟؟ البتہ جبر کے ان حالات میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاسلو یونین نے سپریم کورٹ میں جاری کیس کے لیے ملک کے معروف شخصیت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے، ملازمین پرامید ہیں وہ آئندہ سماعت میں انصاف پر مبنی فیصلہ کروانے میں کامیاب ہوں گے۔
(جاری ہے)