کتاب زندگی

372

عبدالجبار شاکر (مرحوم) ڈائریکٹر جنرل، پبلک لائبریری پنجاب گزرے ہیں، محقق، دانشور اور ایک بھرپور علمی شخصیت، اپنی گفتگو میں انہوں نے ایک مرتبہ نواب بہادر یار جنگ (مرحوم) کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ جب وہ چھوٹے تھے تو ان کی نانی روزانہ انہیں تیار کرکے اسکول روانہ کرتی تھیں، ایک دن ننھے بہادر یار جنگ کو جب نانی اسکول بھیجنے کے لیے تیار کر رہی تھیں تو خلاف معمول وہ خاموش تھیں، بہادر یار جنگ نے بات کرنے کی کوشش کی تو بھی وہ خاموش رہیں، کافی اصرار کے بعد ان کی نانی نے صرف اتنا کہا، ’’آج میں تم سے بات نہیں کروں گی، کیونکہ تم نے آج قرآن مجید کی تلاوت نہیں کی‘‘۔ ویسے تو قرآن سے تعلق کے حوالے سے نبی کریمؐ کا اسوہ اور اصحاب رسول کا سمع و اطاعت کا شعار ہی ہمارے لیے کافی اور مکمل نمونہ ہے لیکن ماضی کا یہ بظاہر چھوٹا سا واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ آج ہمارے چھوٹوں اور بڑوں کا کیا حال ہے اور قرآن سے ہمارا کیا اورکیسا تعلق ہے؟ کلام اللہ کو باقاعدگی سے پڑھنے سمجھنے اور عمل پیرا ہونے میں کیسی نسبت ہے؟۔ سورہ الکہف کی تو ہر جمعہ کو تلاوت کی بہت تاکید ہے، سورہ الکہف کی آیت 49 میں اللہ تعالیٰ نے نامہ اعمال کے حوالے سے مجرموں کے اپنے کتاب زندگی کے اندراج سے ڈر اور ان کی بد نصیبی کا ذکر کیا ہے کہ یہ کیسی کتاب ہے کہ اس میں ان کی کی ہوئی کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ایسی نہیں ہے جو درج ہونے سے رہ گئی ہو۔ اس ایک چھوٹی سی آیت میں جس حقیقت کو آشکارا کیا گیا ہے اس کی یاد دہانی ہفتے میں ایک مرتبہ اس عظیم سورہ مبارک کی تلاوت کرنے کی ترغیب سے بالکل واضح ہے۔ ہم جتنا بھی قرآن کریم کی آیات پر غور و تدبر کریں ہمارے سامنے ایک ہی چیز کے بے شمار پہلو اجاگر ہوتے چلے جائیں گے۔ اس آیت مبارکہ کے مفہوم کو ذہن میں رکھا جائے اس کا اعادہ ہر ہفتہ کیا جائے اور اپنی کتاب زندگی پر غور و تفکر کریں تو قدم قدم ہمارے سامنے وہ باتیں آتی جائیں گی جن کا اندراج ہماری کتاب زندگی میں درج ہونے سے روز قیامت ہمارا نامہ اعمال سوائے ہماری رسوائی اور ندامت کے اور کچھ نہیں ہو گا، لیکن آج موقع ہے کہ ہم اپنے رویوں اور تعلقات کا بے لاگ جائزہ لیں اور اپنی کتاب زندگی کو از سر نو مرتب کرنے کا یہ موقع مہلت عمل کی شکل میں ہمیں میسر ہے اسے ضائع نہ کریں۔

ہم اپنی زندگیوں اور معاشرے کا جائزہ لیں تو جھوٹ، بدگمانی، ایک دوسرے کی تضحیک اور وقت کا زیاں جس میں نہ دنیاوی فائدہ ہو نہ دینی، غفلت اور خواہش پرستی جسے قرآنی اصطلاح میں ’’لھوالحدیث‘‘ کہا گیا ہے جس کا اطلاق بری، فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہوتا ہے یعنی وہ وقت جس میں گزرے لمحات صرف بے مقصدیت اور فضولیات کے سوا کچھ بھی نہیں، اس میں فضول گپ شپ، لا حاصل قصے کہانیاں، فحش لطائف اور گانا بجانا، جیسی خرافات شامل ہیں، سوچیے بحیثیت فرد اور معاشرہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جارہے ہیں؟، معاشرتی بے راہ روی کے روکنے میں اپنا کردار ادا کرنے میں ہماری کوتاہی، کیا یہ سب ہماری کتاب زندگی میں درج نہیں ہو گا؟۔ ایک انسان کی غفلتوں سے بے توجہی اسے خطا

کار بنا دیتی ہے۔ خطاؤں، غلطیوں اور گناہوں کا اسے ادراک بھی ہوتا ہے، قرآن مجید میں جا بجا برائیوں کے بارے میں خبردار بھی کیا گیا ہے، لیکن غفلت شیطان کا ایسا ہتھیار ہے کہ جس نے سیدنا آدم اور اماں حوا سے حکم الٰہی کے منشا کے خلاف وہ اقدام کرا دیا جس کی وجہ سے ربّ کریم کی ناراضی کا پہلا احساس انہیں اپنی بے لباسی سے ہوا۔ حکم الٰہی کے برخلاف ایک درخت کے پاس چلا جانا اللہ کی ناراضی کا موجب تو تھا لیکن دیکھا جائے تو یہ غفلت اور شیطان کے بہکاوے میں آکر اس کی بات ماننے کا نتیجہ تھا، اسی کے علی الرغم بحیثیت فرد معاشرہ میں جاری ظلم، ناانصافی، کرپشن، بے حیائی اور سود جیسے قبیح جرائم کے خلاف مزاحمت نہ کرنا و دیگر احکام الٰہی کو اپنی سمجھ اور پسند اور ناپسند کے حوالے سے اختیار کرنا اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں بے اطمینانی، خوف و ہراس، غربت، طرح طرح کے امراض اور آسمانی آفات، قرآن و حدیث کی روشنی میں حکم الٰہی سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ دراصل یہی وہ مقام اور نکتہ ہے جسے نا سمجھنے کے نتیجے میں ضلالت کے اندھیروں میں مزید بھٹکنے کا عتاب، درخت کے پاس لے جانے کے لیے شیطان کے مختلف بہکاوے تھے جس میں ایک ہمیشہ کی زندگی کا دھوکہ تھا۔ انسان اللہ کا بندہ ہے اور دی ہوئی مہلت میں نتائج سے بے پروا ہو کر اسے صرف اپنے ربّ کا حکم بجا لانا ہے، چاہے اسے حکم اور اس کی نوعیت سمجھ میں آئے یا نہ آئے، یہ ذہنی سوچ عبدیت کے اعلیٰ اور ارفع مدارج کی طرف ہمارا سفر رواں رکھ سکتی ہے۔ جس مثال میں ایک حکم عدولی کی صورت میں اللہ کی ناراضی ہمیں قصہ آدم و ابلیس میں نظر آتی ہے جس میں اپنے تئیں آدم نے مداوے کی کوشش کی اور اس کے ساتھ اپنے ربّ سے فوری رجوع اور غلطیوں ندامت کا احساس اور اس کی تلافی اور اس کے مطابق کی کوششیں یہ سب باتیں قرآن مجید کے مطالعے سے ہمارے سامنے آتی ہیں۔

دوستوں کے ساتھ سر راہ گپ شپ ہو، ٹیلی وژن پر آنے والے پروگرام ہوں یا سوشل میڈیا کی یلغار ہو اس حوالے سے اس میں صرف کیا ہوا ہمارا وقت، کیا اس میں لغویات ہیں کیا اس میں بے مقصدیت ہے اس کا ادراک یہ سب فہم دین کے حوالے سے توجہ طلب ہے۔ بعض سوشل میڈیا، واٹس ایپ کے گروپس میں جہاں شائستہ اور انبیا کے طرز سیاست کو بھی شجر ممنوع بنایا گیا ہے وہاں گانے، مجرے اور خواتین کے گانے، ڈانس اور ادکاراؤں کے ویڈیو کلپس اور فحش لطائف شیئر کرنے کی آزادی ہے، یہ واضح تضاد اسلام کو اپنی خود ساختہ دینی اختراع کی عینک سے دیکھنے کا نتیجہ ہے۔اگر دیکھا جائے تو ہم نے لاعلمی میں اپنی زندگی کو دین اور دنیا کے خانوں میں بانٹا ہوا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی خود ساختہ سوچوں سے آگے نہیں جانا چاہتے، اس کی ایک بڑی وجہ دینی حمیت کی کمی کی وجہ سے احکام قرآنی کی حکم عدولی یا نظر انداز یا برداشت کرنا ہے وہیں مزاحمت اور کم ہمتی اور نتیجہ کے طور سے طاغوت کے سامنے سینہ سپر ہونے کی صلاحیت سے محرومی۔ یہ روز روشن کی طرح حقیقت ہے کہ ہمیں اپنی معیشت، معاشرت اور سیاست سمیت ہر دائرہ زندگی کا بے لاگ احتساب اور ہر اس رویہ اور تعلق سے کنارہ کشی کرنی ہوگی جسے ہم سمجھتے ہوں کہ ہماری کتاب زندگی میں خدانخواستہ جس کا اندراج یوم آخر کسی شرمندگی اور پچھتاوے کا سبب نہ بنے۔ ابلیس کا اللہ تعالیٰ سے لی ہوئی مہلت میں انسانوں کو بھٹکانے کا مشن روز اوّل سے اب تک جاری ہے، کیا معاشرے میں پھیلتی ہوئی فحش گوئی اور ساتر لباس کی جگہ ناقص و عریاں لباسی کسی دیدہ و بینا سے پوشیدہ رہ گئی ہے، کیا یہ آدم و حوا کے معاملہ کی طرح ہمارے لیے ربّ کریم کی ناراضی کا اوّل مظہر تو نہیں؟ اس کا سبب ہماری بحیثیت فرد اور معاشرہ قرآن سے دوری کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔