Comfort Zone

262

میں: یار آج کل تم انگریزی بہت جھاڑنے لگے ہو، آج کے موضوع پر گفتگو شروع کرنے سے پہلے ذرا وضاحت تو کرو کمفرٹ زون کیا ہوتا ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟

وہ: نہیں ایسا بالکل نہیں کہ انگریزی سے کسی کو مرعوب کیا جائے، مسئلہ یہ ہے کہ انگریزی کے الفاظ اور اصطلاحات ہماری روز مرہ کی گفتگو اور اردگرد کے ماحول میں اس قدر سرایت کر گئے ہیں کہ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا استعمال کرنا پڑ جاتا ہے۔ جہاں تک رہی بات کمفرٹ زون کی تویہ اصل میں آرام طلبی اور سستی کا نام ہے، انسان اپنے روز وشب کے دوران کسی بھی تبدیلی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا اور چاہتا ہے کہ بس جیسا چلتا ہے چلتا رہے، اسے کسی قسم کی کوئی زحمت نہ دی جائے۔ اسے تم انسان کی ایسی حالت بھی کہہ سکتے ہو جس میں اس کا ذہن کسی چیلنج کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو، اور نفسیاتی طور پر روز مرہ معمولات میں ذرا بھی خلل سے وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس چیز کو اگر آج کل کی پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے دیکھو تو ایک خاص مقام تک پہنچنے کے بعد آگے بڑھنے کی جستجو نہ کرنا اور جوکچھ جتنا اور جیسا بھی میسر ہے اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ جانا اور دن، مہینے، سال اسی طرح گزارتے چلے جانا۔ بقول منشی امیر اللہ تسلیمؔ

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

میں: لیکن قناعت کی زندگی گزارنا، کم پر راضی رہنا، جو مل جائے صبر شکر کرکے کھا لینا یہ سب تو ربّ کی رضا کے حصول کا ذریعہ نہیں؟

وہ: بالکل ایسا ہی ہے اگر انسان اپنے نفس اور خواہشات کو ربّ کی رضا ومرضی کے حوالے کردے تو دنیا میں اس سے بڑی کامیابی وخوش نصیبی کچھ اور ہوہی نہیں سکتی۔ لیکن یہ کمفرٹ زون والا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ میری دانست میں یہ قناعت اور صبرو شکر کے بجائے شاید جمود کی وہ کیفیت ہے جو برسوں سے ہمارے دل ودماغ پر طاری ہے، یا پھر نظام کے اس ظلم کے خلاف کچھ نہ کر پانے کے باعث پسپائی اور شکست خوردگی کا وہ احساس ہے جس نے ہمیں ذہنی اورعملی طور پر مکمل مفلوج کردیا ہے۔

میں: میرے خیال سے یہاں مفلوج کی جگہ مجبور کا لفظ استعمال کیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ جیسا کہ تم نے گزشتہ نشست میں کہا تھا کہ کسی بھی سرکاری دفتر میں اٹکا ہوا کوئی بھی کام وہاں موجود کلرک یا افسرکو رشوت دیے بغیر نہیں ہوتا، اب یہ کام خوشی سے تو کوئی نہیں کرنا چاہتا، ہر شخص مجبور ہوکر نہ چاہتے ہوئے مٹھائی، ایڈجسٹمنٹ اور کمیشن کے نام پر رشوت دے کر اپنا کام کرالیتا ہے، ورنہ اس کے مقدر میں صرف خواری اور ذلت ورسوائی ہی رہ جاتی ہے۔

وہ: بھائی یہی تو وہ کمفرٹ زون ہے ہم بس اپنا کام کرانا چاہتے ہیں، اگر ٹیڑھا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہمیں بھی بہت جلدی ہے اور وقت تو ویسے بھی نہیں ہوتا ہمارے پاس۔ کسی شکایت، احتجاج، رپورٹ کے چکر میں پڑ کر کیوں اسے ضائع کریں، جب سارا نظام ہی کرپٹ ہوگیا ہے تو ہمیں کیا پڑی ہے اس کے خلاف کچھ کہنے اور واویلا مچانے کی۔ اور اگر کبھی کوئی سڑکوں پر آکر پانی یا بجلی وغیرہ کے مسئلے پر آوازِ احتجاج بلند کرے تو کہتے ہیں، ابے یار پھر ٹریفک جام ہوگیا، اتنا شاندار ڈراما چل رہا تھا، آخری قسط ہے آج، نکل جائے گی ان لوگوں کے چکر میں۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے پانی کے بل بنانے کے لیے واٹر بورڈ کے دفتر میں محلے کے دس سے پندرہ لوگوں نے ایک فرض شناس رشوت خور افسر کو بیس بیس، پچیس پچیس ہزار روپے سے اس کی جیبیں گرم کرکے اپنے برسوں کے پچاس، ساٹھ اور اسی اسی ہزار کے سابقہ بل صرف چھے مہینے کی بل کی رقم دے کر جان چھڑا لی اور اپنے کمفرٹ زون کو بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ خود ہی سوچو اگریہ دس پندرہ افراد پلے کارڈ لے کر اس دفتر کے سامنے احتجاجاً کھڑے ہوجاتے یا اس رشوت خور کی شکایت واٹر بورڈ کے ہیڈ آفس میں جاکر کردیتے تو گمان ہے کہ ان کا مسئلہ شاید حل ہوجاتا۔ لیکن اب یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ واٹر بورڈ کے ہیڈ آفس کے اعلیٰ افسران کو اس میں سے کتنی رقم ہر ماہ پہنچائی جاتی ہے۔ میرے دوست ظالم صرف ظلم کرنے والا ہی نہیں ہوتا، اسے سہنے والا مظلوم بھی ظالم ہی ہوتا ہے، جو اپنے اوپر ہونے والی مسلسل زیادتی کو خاموشی سے برداشت کرتا اور جس میں ذرا جوش ِ ایمانی زندہ ہوتا وہ اندر ہی اندر کُڑھتا بھی رہتا ہے۔

تن آسانی کے اس طرزِ عمل کو اس مثال کے ذریعے بھی بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ حماس کے مجاہدین کی جانب سے ڈیڑھ دوسو اسرائیلیوں کو یر غمال بنانے اور اس کے بعد اسرائیل کے وحشیانہ مظالم کے تناظر میں ایک طبقہ حماس کو مسلسل ہدف ِ تنقید بنارہا ہے کہ کیا ضرورت تھی اس ایڈونچر کی، جب پتا تھا کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہے، دیکھا کتنے معصوم بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں کی تعداد میں جانیں ضائع ہوگئیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ عربوں نے بالخصوص اور ہم مسلمانوں نے بالعموم اس دنیا کو اپنا کمفرٹ زون بنالیا ہے۔ اللہ کی راہ میں جہاد تو بہت دور کی بات ہماری روح تو مزاحمت کا ایک لفظ لکھنے یا بولنے ہی سے کانپ اٹھتی ہے۔ اسی لیے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے اور پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کے سپہ سالاروں کی زبانیں گنگ ہیں، کیوں کہ ڈر ہے کہ اگر غلطی سے بھی کچھ کہہ دیا تو ان کے مائی باپ امریکا بہادر پر گراں نہ گزرجائے۔ بقول اقبالؔ

دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا
زندگی موت ہے کھو دیتی ہے جب ذوقِ خراش

مجموعی طور پر ہمارے ملک کے تمام مکاتب ِفکر، علماو مشائخ، تاجر، سیاستدان، فوج سب اپنے اپنے کمفرٹ زون میں کسی پریشانی کے بغیر اطمینان سے اپنے شب وروز میں مشغول ہیں اور ہماری تو پوری تاریخ ہی اسی انگریزی اصطلاح سے عبارت ہے۔ اور اب تو حالات اتنے سازگار اور خوشگوار ہوچکے ہیں کہ ہماری نام نہاد جمہوری اور دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس کمفرٹ زون کو مزے سے انجوائے کررہی ہیں۔ کیوں کہ جب معاملہ مشترکہ مفاد ات اور مراعات کا ہو تو دونوں فریقوں میںسے ایک بھی کوئی ایسا قدم اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا جس سے ان کے مفادات کو ذرا بھی ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو۔