اسلام اور عصری علوم(حصہ دوم)

272

تاریخی حقائق یہ ہیں: جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اور وہ عقائد اور اعمال میں بھی اسلام پر سختی سے کاربند تھے تو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انہیں غلبہ عطا فرمایا، لیکن جوں جوں وہ علم کے میدان میں پیچھے رہتے چلے گئے، اُن کا زوال تیز تر ہوگیا۔ اسلام سائنس اور ٹیکنالوجی اور علم کی ترقی میں بہت بڑا معاون ہے۔ سیکولرازم فقط مادّی مفادات کے حصول اور دین کو انفرادی اور اجتماعی زندگی سے نکالنے کا نام ہے۔ اسلام میں دینی تعلیم کی اہمیت بلاشبہ سب سے زیادہ ہے، لیکن اسلام عصری علوم سے صرفِ نظر کی تعلیم نہیں دیتا، بلکہ اس کا مُحَرِّک ہے۔ مندرجہ ذیل تاریخی حقائق اس کا واضح ثبوت ہیں کہ اسلام مادّی اور روحانی دونوں طرح کی زندگی کی ترقی اور کامیابی کا ضامن ہے۔

مغرب کے مستشرقین میں نہایت مشہور اور مقبول تاریخ دان Franz Rosenthall ’’علم اور مسلمان‘‘ کے تحت لکھتا ہے: ’’جو لوگ یورپ کی جدید ترقی کا بہت شور مچاتے ہیں، ان کو جاننا چاہیے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) اُس وقت ممکن ہوئی جب یورپ نے سائنس اور علوم میں تیرہویں صدی سے سولہویں صدی تک مسلمانوں کی ایجادات سے استفادہ کیا۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی تمدن یا تہذیب بھی مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں حصولِ علم، فروغِ علم اور ابلاغ میں مسلمانوں سے بڑھ کر نہیں تھی‘‘، پھر اس نے اپنے موقف کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا:

’’مسلمانوں کی زندگی میں فہم وادراک، مذہب، سیاست اور معاشرت، الغرض کوئی بھی شعبہ ایسا نہ تھا کہ ایک عام مسلمان کو روز مرہ زندگی میں بھی علم کے حاصل کرنے اور اس کی حفاظت کرنے سے انتہائی دلچسپی نہ ہو، یہاں تک علم کوزندگی کی ہر شے سے بڑھ کر فوقیت دینا ہر مسلمان کا شیوہ بن گیا، حتیٰ کہ علم اور اسلام ہم معنی بن گئے‘‘۔

(Knowledge Triumphant: Concept of Knowledge in Medieval Islam, P:2)

الغرض یہ کہناکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور سیکولرازم لازم و ملزوم ہیں، درست نہیں ہے۔ اسلام علم، سائنس اور تحقیق کا منبع ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جس کی شروعات ہی پہلی وحی کے پہلے لفظ میں اِقْرَأ (پڑھو) کے حکم سے ہوئی‘‘۔ (العلق: 1) قرآنِ کریم نے رسول اللہؐ کی نمایاں صفات یہ بیان کیں کہ آپؐ آیاتِ الٰہی کی تلاوت اور تزکیۂ نفس کے ساتھ ساتھ کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ (آل عمران: 164) سیدنا موسیٰؑ نے سیدنا خضر ؑ سے ملاقات کے لیے طویل سفر کیا اور اس کا مقصد ’’عِلْمُ الْاَسْرَار‘‘ یعنی ظاہری احکام کے پیچھے جو باطنی حکمتیں پوشیدہ ہیں، انہیں جاننا مقصود تھا۔

اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان سیدنا آدمؑ کے جس وصف کو فرشتوں پر فضیلت کا سبب بتایا، وہ علم ہی تھا اور بعض مفسرین نے لکھا ہے: سیدنا آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے اُن چیزوں کا علم عطا فرمایا جو زمین پر بودوباش اور بقائے حیات کے لیے ضروری تھیں، اسی کو ہم دنیاوی یا عصری علم سے تعبیر کرتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘، (ابن ماجہ) نیز فرمایا: ’’حکمت کی ہر بات مومن کی گم شدہ میراث ہے، سو وہ اُسے جہاں پائے، (ضرور حاصل کرے)، کیونکہ وہی اس کا صحیح حق دار ہے‘‘۔ (ترمذی) حکمت نہایت جامع لفظ ہے اور ہمارے علمی سرمائے میں فلسفے کو بھی حکمت قرار دیا گیا ہے، حکمت کے ایک معنی ہیں: ’’کسی چیز کی حقیقت کو جاننا‘‘۔

رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ، اُس کے فرشتے اور زمینی وآسمانی مخلوق حتیٰ کہ اپنی بلوں میں چیونٹیاں اور (پانی میں) مچھلیاں لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر رحمت کی دعا کرتی ہیں‘‘، (ترمذی) حدیث مبارک کا منشاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مُعَلِّمِ خیر پر رحمت نازل فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہر صاحب ِ علم کے اوپر ایک اور علم والا ہے‘‘، (یوسف: 76) یعنی علم میں ارتقاء کے مدارج کبھی ختم نہیں ہوتے۔

سیکولرازم، لبرل ازم، سائنسی وفنی علوم اور ترقی لازم وملزوم نہیں ہیں، پس یہ سمجھ لینا غلط ہے کہ سیکولرازم کے بغیر سائنسی وفنی ترقی ناممکن ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی الغرض تمام مادّی علوم کی معراج مادّی ترقی اور جسمانی راحتوں اور آسائشوں کا حصول ہے، جبکہ دینی علوم کا تعلق مادّی ارتقاء کے ساتھ ساتھ روحانی ارتقاء سے بھی ہے، اس کا منبع وحیِ ربانی اور ذاتِ باری تعالیٰ ہے، جبکہ سیکولرازم کے حقیقی معنی لادینیت کے ہیں، لہٰذا اسلام اور سیکولرازم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں ارتقاء کا کہیں بھی اسلام سے تصادم نہیں ہے، نہ یہ اسلام کے معارض ہیں۔ ہر دور کے کفار یہی کہتے رہے: (۱) ’’جو کچھ بھی ہے، یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہلاک کرتا ہے اور درحقیقت انہیں اس کا علم نہیں ہے، وہ تو صرف گمانوں میں مبتلا ہیں‘‘، (الجاثیہ: 24) (۲) ’’بس (جو کچھ بھی ہے) یہی دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں (دوبارہ) نہیں اٹھایا جائے گا‘‘۔ (المومنون: 37) پس اسلام اور سیکولرازم میں مابہِ الامتیاز (Differentiator) عقیدۂ آخرت ہے اور اسلام کے تمام بنیادی عقائد، عبادات، احکام اور اخلاقیات ہیں۔ شیخ سعدی نے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے دولت اورہنر (ٹیکنالوجی) کا فرق بتایا کہ دولت چھن سکتی ہے، ختم ہوسکتی ہے، اس پر کوئی آفت نازل ہوسکتی ہے، لیکن ہنر بجائے خود دولت ہے، اس لیے ہنر مند جہاں بھی ہوگا، دولت اس کے قدموں میں ہوگی‘‘۔ (گلستانِ سعدی)

لہٰذا سیکولرازم اور سائنسی ترقی کو لازم وملزوم اور سائنسی ترقی کو اسلام کی ضد سمجھنا فریب ہے، البتہ سیکولرازم یقینا اسلام کی ضد ہے۔ مسلمانوں نے اپنے زمانۂ عروج میں سائنس اور علم کو ایسی بلندیوں تک پہنچا دیا کہ خود مغرب کے تاریخ دانوں کو اس کا اعتراف اور تعریف کرنی پڑی، مثلاً: برطانوی مؤرخ رابرٹ اسٹیفن برے فو (Robert Stephen Briffault) نے اپنی کتاب ’’The Making of Humanity‘‘ میں واضح طور پر لکھا ہے: ’’اگر مسلمانوں نے علمِ فلکیات کو اپنے عروج کے دور میں قابلِ قدر بلندیوں پر نہ پہنچایا ہوتا تو اس کے بغیر نہ کوپرنیکس (Copernicus) اور نہ نیوٹن (Newton) ہوسکتے،(صفحہ: 92)۔ امریکن تاریخ دان جان ولیم ڈریپر اپنی کتاب ’’History of the Conflict between Religion & Science‘‘ میں مسلمانوں کے علم اور سائنس کے متعلق لکھتا ہے:

’’ادب کے میدان میں مسلمان اس کے ہر حصے اور موضوع میں ایسی دلچسپی لیتے کہ یہ تفریح طبع اور دماغی سوچ دونوں کو ان کی عروج تک پہنچا دیتے، سائنس کے میدان میں ان کی قابل فخر ترقی کا یہ حال تھا کہ وہ عملی تجربات کے بغیر صرف قیاسات پر اکتفا نہیں کرتے تھے، سائنس کی ترقی کے لیے وہ قدرت کی ہر شے کو تجربات سے پرکھنے کے بعد ہی قبول کرتے تھے۔ لہٰذا تجربہ اور اس کے نتیجے کا مشاہدہ ہی اُن کے نزدیک قابلِ قبول تھا‘‘، اس کے مقابلے میں یونانی فلاسفہ فقط فکری ابحاث پر ہی کفایت کرتے تھے، اسی لیے مشہور برطانوی مؤرخ اور فلسفی برٹرانڈ رسل (Bertrand Russell) نے یونانیوں کے متعلق لکھا: ’’یونانیوں نے دنیا کو صرف شاعروں کی نظر سے دیکھا نہ کہ سائنسدانوں کی نظر سے‘‘۔ (The Scientific Outlook,Page:2)

دنیا کی قدیم ترین اور پہلی یونیورسٹی ایک مخیر مسلم خاتون فاطمہ بنت محمد الفَہری نے مراکش میں 245 ہجری میں تعمیر کی تھی، اس کا نام جامعۃ القرَوِیِّیْن ہے، یونیسکو (Unesco) کے مطابق ’’القرَوِیِّین‘‘ شروع ہی سے یونیورسٹی تھی، یہ دنیا کی قدیم ترین واحد یونیورسٹی ہے جو آج تک مصروفِ عمل ہے۔ مسلمانوں نے اپنے عہدِ عروج میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے، اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

(۱) یورپ میں سب سے پہلی یونیورسٹی مسلمانوں نے بنائی تھی، اس کا نام ’’سالرنو یونیورسٹی (Salerno University)‘‘ تھا۔

(۲) اٹلی میں کشش ثقل (Gravity) کو دریافت کرنا رابرٹ نیوٹن سے منسوب کیا جاتا ہے، مگر درحقیقت نیوٹن سے کم از کم پانچ سو سال قبل ایک مسلمان سائنس دان وجغرافیہ دان شریف الادریسی (متوفّٰی 494ھ/1111ء) نے واضح الفاظ میں کششِ ثقل (Gravity) کی تعریف ان الفاظ میں کی تھی:’’اَلْاَرْضُ جَاذِبَۃٔ لِمَا فِی اَبْدَانِھِمْ مِنَ الثِّقْلِ بِمَنْزَلَۃِ حَجَرِ الْمقناطِیْسِ الَّذِیْ یَجْذِبُ الْحَدِیْدَ‘‘۔

ترجمہ: ’’اجسام میں جو وزن ہے، زمین اُسے اپنی طرف اسی طرح کھینچتی ہے، جیسے مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے‘‘۔ (جاری ہے)