وفاقی حکومت کی جانب سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ایک بار پھر عوامی مشکلات اور تکلیف کو بڑھا گا۔ پٹرول کی قیمت 252.10 روپے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 258.43 روپے فی لیٹر تک پہنچ چکی ہے، جو عام شہریوں کے لیے مزید مہنگائی کا سبب بنے گا۔ اس کے برعکس، لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں معمولی کمی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ریاست کا یہ اضافہ و کمی کے گورکھ دھندا صر ف لوگوں کو دھوکہ دینے عمل لگتا ہے جو برسوں سے جاری ہے۔ مہنگائی کے اس پس منظر میں، حکومت یہ دعویٰ کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے تاریخی سنگِ میل عبور کر لیا ہے، حقیقت سے کتنا قریب ہے؟ وزیراعظم شہباز شریف نے اسٹاک ایکسچینج کے 100 انڈیکس کے ایک لاکھ پوائنٹس عبور کرنے کو حکومتی پالیسیوں پر عوام کے اعتماد کی علامت قرار دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ’’معاشی استحکام‘‘ عام شہریوں کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی لا رہا ہے؟ مہنگائی کے اعداد و شمار اور عوامی مشکلات کے درمیان یہ تضاد حکومتی پالیسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کے اعداد و شمار صرف سرمایہ کاروں کے لیے اہم ہو سکتے ہیں، اور یہ حقیقت میں سٹے بازی کا کھیل ہے۔ اور لیکن ان کا عام شہری کی روزمرہ زندگی پر کوئی براہِ راست اثر نہیں ہوتا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف ٹرانسپورٹ کے اخراجات بڑھیں گے بلکہ اشیائے خورو نوش اور دیگر بنیادی ضروریات کی قیمتیں بھی مزید بلند ہوں گی۔ حکومت کے دعوے کہ ملک درست سمت میں گامزن ہے، اس وقت تک کھوکھلے ہی محسوس ہوں گے۔ جب تک کہ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی میں ریلیف نہ دیا جائے۔ میثاق معیشت کی تجویز ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، لیکن یہ صرف الفاظ سے زیادہ کچھ نہیں جب تک کہ اس کا عملی مظاہرہ عوام کی فلاح و بہبود میں نہ کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ اسٹاک مارکیٹ کی کامیابیوں کو عوام کی مشکلات کے حل سے جوڑے اور معاشی استحکام کے دعووں کو زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرے۔ بصورتِ دیگر یہ تضادات عوام کے اعتماد کو مزید کمزور کریں گے اور مہنگائی کا جن بے قابو رہے گا۔