بنگلا دیش اس وقت سیاسی بحران کے نازک دور سے گزر رہا ہے، جہاں سیف الاسلام ایڈووکیٹ کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی بدامنی نے ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال اور انقلاب کو متاثر کیا ہے۔ ایک طرف عوامی غصہ اور مظاہرے شدت اختیار کر رہے ہیں، تو دوسری طرف سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کے متنازع بیانات نے صورتحال کو خراب کیا ہے۔ وہاں کی موجودہ صورت حال میں بھارت کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت بازی پلٹنے کی کوشش میں ہے، خطے میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے بھارت ہمیشہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے جہاں اندرونی خلفشار کو بنیاد بناکر دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کی جا سکے۔ موجودہ حالات میں بھارت کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ بنگلا دیش کی داخلی سیاست کو مزید کمزور کرے اور اپنی مرضی کے حالات پیدا کرے۔ اس کے ساتھ حسینہ واجد کی بھارت نواز پالیسیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کا جھکاؤ ہمیشہ بھارتی مفادات کی طرف رہا ہے۔ یہ وقت بنگلا دیش کی نئی قیادت کے لیے امتحان کا ہے کہ وہ اس چیلنج سے کیسے نمٹتی ہے۔ انہیں نہ صرف اندرونی انتشار کو قابو میں لانا ہوگا بلکہ بھارت کی ممکنہ مداخلت کے خطرے کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا۔