بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں گزشتہ شب ایک خاتون صحافی کو مشتعل ٹولے سے گھیر لیا اور بدتمیزی کی۔ مشتعل افراد کا کہنا تھا کہ مُنی ساہا بھارتی ایجنٹ ہے، ہمیشہ بھارت کے حق میں بولتی رہتی ہے اور اپنی ریاست و حکومت پر تنقید کے تیر برساتی رہتی ہے۔
مُنی ساہا کو سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کی حمایت کرنے پر بھی شدید نکتہ چینی کا سامنا رہا ہے۔ پولیس نے مُنی ساہا کو مشتعل ہجوم کے چُنگل سے نکال کر تیج گاؤں پولیس اسٹیشن پہنچایا اور بعد میں گھر منتقل کردیا۔
جب مُنی ساہا اپنے میڈیا ہاؤس سے گھر جانے کے لیے کار میں نکلی تو چند افراد نے کار کو کاروان بازار کے علاقے میں گھیر لیا اور مغلظات بکنا شروع کیا۔
بنگلا دیش کی وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کو دو ماہ تک جاری رہنے والی طلبہ تحریک کے نتیجے میں 5 اگست کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ تب سے اب تک بنگلا دیش میں کسی نہ کسی شکل میں اُن لوگوں کے خلاف احتجاج جاری رہا ہے جو شیخ حسینہ واجد کے دور میں فوائد بٹورتے رہے ہیں یا پھر شیخ حسینہ واجد کی بھارت نواز پالیسیوں کے طرف دار رہے ہیں۔
عوامی لیگ کے پندرہ سالہ اقتدار میں بھارت کے ایجنٹ بنگلا دیشی کے تمام ریاستی اداروں میں جڑیں گہری کرنے میں کامیاب رہے اور اب اُنہیں عوام کے شدید اشتعال کا سامنا ہے۔