تحریک انصاف کی فائنل کال کیا اس کے لیے فائنل فال بن جائے گی۔ اس پر تو ہم بعد میں بات کریں گے پہلے تو یہ دیکھیں کہ 26 نومبر کو اسلام آباد میں جو ڈراپ سین ہوا ہے اس کو عوامی زبان میں کئی نام دیے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں لوٹ کے بدھو گھر کو آئے یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔ یا ایک عوامی جملہ یہ بھی ہے کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ کارکنوں کے اندر اتنی ہائپ کھڑی کرکے اور اتنا جذباتی ماحول بنا کر کہ ہم خان کو ساتھ لیے بغیر نہیںجائیں گے، پھر کیا ہوا نہتے کارکنوں کو فوج، رینجرز اور پولیس کے حوالے کرکے بشریٰ بی بی سمیت تمام لیڈر شپ پتلی گلی سے نکل لی۔ یہ پتلی گلی کے الفاظ تو محاورتاً استعمال کیا ہے بشریٰ بی بی کارکنوں کے بے حد اصرار کے باوجود کہ آپ ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں اور وہ سب کے سامنے چلی گئیں اور گنڈا پور صاحب تو راستے میں کئی بارجانا چاہتے تھے لیکن کارکنان نے انہیں جانے نہیں دیا وہ رات کی تاریکی میں مانسہرہ چلے گئے۔ جبکہ وہ تو یہ تک کہتے تھے اگر ہم واپس نہیں آئے تو لوگ ہمارے جنازے پڑھنے کا انتظام کریں۔ ہم ماریں گے یا مر جائیں گے خان کو لے کر آئیں گے اس موضوع پر بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم کچھ تاریخی واقعات آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ کس طرح قیادتیں اپنی جرأت، بہادری، اخلاص اور استقامت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
1962 میں جماعت اسلامی کے ارکان کا کل پاکستان اجتماع لاہور میں ہورہا ہے۔ اوّل تو انتظامیہ نے کئی قدغنوں کے ساتھ اس اجتماع کی اجازت دی جس میں ایک اہم بات یہ تھی کہ لائوڈ اسپیکر استعمال نہیں ہوگا اس کے علاوہ بھی کچھ خبریں جماعت کے پاس پہنچ رہی تھیں کہ اس اجتماع کو سبو تاژ کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ جماعت کے یہ خدشات درست نکلے مولانا مودودی جیسے ہی خطاب کے لیے کھڑے ہوئے کچھ شامیانوں کی رسیاں کاٹ کر گرا دیا گیا اور اسٹیج کی طرف رخ کرکے شرپسندوں نے فائرنگ شروع کردی اسٹیج پر کھڑے ایک کارکن اللہ بخش کو گولی لگی اور وہ وہیں شہید ہو گئے۔ فائرنگ ہورہی ہے اور مولانا مودودی اسٹیج پر کھڑے ہیں کسی نے کہا کہ مولانا بیٹھ جائیے اس وقت مولانا نے جواب دیا کہ آج اگر ہم بیٹھ گئے تو پھر کھڑا کون رہے گا۔ پھر آپ جماعتی نظم و ضبط کی معراج دیکھیے کہ شرکاء اجتماع نے گرے ہوئے شامیانے خود فوراً کھڑے کردیے اور مولانا نے اپنی تقریر اس طرح شروع کی کہ اجتماع کے درمیان کچھ افراد کی ڈیوٹی لگی کے وہ مولانا کی تقریر کے جملے اپنے آگے والے سے سن کر اپنے پیچھے والے کو بتائے اس طرح پورے مجمع نے بڑے پرسکون انداز میں تقریر سنی اور وہ اجتماع ایک کارکن کی شہادت کے باوجود اپنے وقت پر اختتام پذیر ہوا۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ عرصے بعد جس اعلیٰ سرکاری شخصیت نے یہ منصوبہ بندی کی تھی وہ خود اپنے بیٹے کے ہاتھوں فائرنگ سے ہلاک ہوا۔ بے نظیربھٹو کا دوسرا دور حکومت ہے امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے حکومت کے خلاف اسلام آباد میں جلوس اور مظاہرے کا اعلان کیا پورے ملک سے کارکنان گئے قاضی صاحب کی قیادت میں جلوس چل پڑا پولیس نے پہلے تو زبردست شیلنگ کی اور پھر فائرنگ شروع کردی پانچ کارکنان شہید ہوئے پوری دنیا نے ٹی وی چینل پر یہ مناظر دیکھے اور یہ بھی دیکھا کہ آنسو گیس کے دھوئیں اور شدید فائرنگ کے درمیان قاضی صاحب اپنی جگہ پر ڈٹے کھڑے ہیں سیکڑوں کارکنان ان کے ساتھ ہیں وہ اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں گئے۔
ملک کے معروف صحافی حامد میر ایک یو ٹیوبر کو انٹرویو دیتے ہوئے اس دن کا آنکھوں دیکھا حال بتارہے تھے کہ کس طرح تحریک انصاف کے کارکنوں نے حکومت کے اس دعوے کی دھجیاں اڑادیں کہ اسلام آباد میں تو چڑیا پر بھی نہیں مارسکتی انہوں نے بتایا کہ شرکاء جلوس کے پاس موٹے رسے تھے جس سے وہ کنٹینر کو باندھتے اور پھر پورا ہجوم اس کو کھینچتا اس طرح راستے بنا کر لوگ اسلام آباد میں داخل ہوئے ایک اور رپورٹر نے ایک چینل پر کسی جگہ کا نام لے کر بتایا کہ وہاں پر جو پولیس فورس لگی تھی ان پر فائرنگ ہوئی انہوں نے بالائی افسران سے جوابی فائرنگ کی اجازت مانگی جو ان کو نہیں دی گئی تو انہوں نے وہاں سے یہ کہہ کر اپنی فورس ہٹالی کہ ہم اپنے پولیس والوں کو اس طرح مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے پھر وہاں سے بھی شرکاء جلوس اسلام آباد میں داخل ہوگئے۔ حامد میر نے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکنان پورے ملک سے آئے تھے اور وہ سب بہت چارجڈ تھے بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کی قیادت میں جلوس چائنا چوک تک آیا پھر دو ڈھائی سو شرکاء ڈی چوک تک پہنچ گئے وہاں پر موجود فوج اور رینجرز نے ان شرکاء سے باقاعدہ ہاتھ ملایا اور وہ ڈی چوک چھوڑ کر چلے گئے اب ان لوگوں نے جو ڈی چوک تک پہنچ گئے تھے پیچھے قیادت کو پیغام بھیجا کہ وہ یہاں آجائیں لیکن پتا نہیں کیوں یہاں سے قیادت جلوس کو لے کر ڈی چوک نہیں گئی، جبکہ یہ بات بھی آچکی ہے کہ جو مذاکرات حکومت سے چل رہے تھے اس میں عمران خان یہ بات مان گئے تھے کہ سنگجانی میں دھرنا دے دیا جائے لیکن جب بشریٰ بی بی کو یہ بات بتائی گئی تو وہ سنگجانی جانے پر آمادہ نہیں ہوئیں اور کہا کہ ہم تو ڈی چوک ہی جائیں گے۔ اگر حکومت کی پیشکش اور عمران خان کی رضامندی کی روشنی میں سنگجانی میں دھرنا دے دیا جاتا تو حکومت کو کچھ ریلیف مل جاتا شہر کھل جاتا اور پھر مذاکرات بھی کچھ نتیجہ خیز بن جاتے لیکن تحریک انصاف نے یہ موقع گنوا دیا، ادھر جو لوگ ڈی چوک پہنچ گئے تھے وہ بھی قیادت کی طرف سے حوصلہ افزا جواب نہ ملنے کے باعث مایوس ہوکر واپس آگئے اور وہاں پر پھر رینجرز نے قبضہ کرلیا۔
ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی پوری قیادت اس دن شدید قسم کی کنفیوژن کا شکار تھی منزل کے قریب پہنچ کر بھی منزل نہ پاسکے پی ٹی آئی کی قیادتیں بشریٰ بی بی کی آمد اور ان کے رویے سے بہت شاکی ہیں کہ انہوں نے سنگجانی میں دھرنے کی پیشکش کو ٹھکرا کر تحریک انصاف کے لیے مشکل کھڑی کردی ایک خیال یہ بھی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ عمران خان نے بشریٰ بی بی کو کہا ہو کہ درمیان میں بہت سارے غلط سلط پیغامات ادھر سے ادھر جارہے ہیں اس لیے اگر کوئی تم سے یہ کہہ کہ عمران خان سے بات ہو گئی ہے ایسا کرلو تو تم یقین نہ کرنا اور ڈی چوک تک لازمی پہنچنا ہے لیکن وہ وہاں بھی نہیں گئیں اور شام کو وہ ایک کار میں بیٹھ کر واپس چلی گئیں جبکہ وہاں کارکنان انہیں بڑی منت سماجت کرکے رکنے کا کہہ رہے تھے لیکن وہ نہیں رکیں ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ بشریٰ بی بی کے پاس کسی اہم شخصیت کا فون آیا کہ آپ ابھی واپس چلی جائیں ہم کچھ دن بعد عمران خان کو ایک بڑا ریلیف دلا سکتے ہیں پھر ان کے ساتھ ہی علی امین گنڈا پور بھی واپس چلے گئے۔ پھر ان کے کنٹینر کو آگ لگادی گئی ایک خیال یہ ہے کہ خود پی ٹی آئی کے جذباتی کارکنان نے غصے میں اس کنٹینر کو آگ لگادی ہو اس لیے جو کارکنان دن میں موجودہ حکمرانوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے، رات کے وقت انہوں نے بشریٰ بی بی اور اپنی قیادتوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔
ایک سوال یہ ہے کہ اس پورے ایپی سوڈ میں کس کی جیت ہوئی ہے اور کس کی ہار ہوئی ہے حکومت تو یہ خوش ہے کہ عمران خان کو رہا کیے بغیر ہم نے اسلام آباد خالی کرا لیا اور وہ اپنے آپ کو فاتح سمجھ رہے ہیں لیکن تحریک انصاف کا اتنے سخت پہرے اور انتظام کے باوجود کہ پنجاب کے علاوہ سندھ سے پولیس فورس منگوائی گئی ایف سی لوگ اور رینجرز کے علاوہ فوج بھی بلا لی گئی اس کے باوجود وہ اسلام آباد پہنچ گئے یہی ان کی بہت بڑی جیت ہے اب میرا خیال ہے کہ دونوں فریقین کو اپنے سخت رویے میں لچک پیدا کرکے ملک اور قوم کی خاطر مذاکرات کی طرف آنا چاہیے اگر ایسانہ ہوا تو پی ٹی آئی کے جو نوجوان جذباتی طور پر خان کو چھڑانے آئے تھے وہ قیادت کے رویے سے بہت مایوس ہوئے ہیں اور ان کی یہ مایوسی انہیں کسی اور طرف بھی لے جاسکتی ہے ویسے بھی ٹی ٹی پی کا یہ بیان آیا ہے جس میں انہوں نے پی ٹی آئی کے کارکنان کو اپنی تنظیم میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ اس لیے اس فائنل کال کو فائنل فال نہ سمجھا جائے کچھ عرصے بعد دوبارہ نئے جوش و جذبے کے ساتھ یلغار ہوسکتی ہے۔