ڈی چوک اسلام آباد کی تاریک راہوں میں مارے جانے والوں میں یوں تو اکثریت نوخیز جوانیوں کی ہے مگر کوٹلی ستیاں کے ٹین ایجر انیس شہزاد ستی کے کھلتے ہوئے چہرے اور اس کے والد کی آنکھوں میں تیرتے بے بسی کے آنسووں نے فوراً 2013 کے قاہرہ کے رابعہ العدویہ اسکوائر میں پہنچا دیا۔ جب ایک پرامن دھرنے پر مصر کی سیکورٹی فورسز نے ٹینکوں، بلڈوزروں جدید مشین گنوں اور واٹر کیننز کے ذریعے چڑھائی کر دی اور بائیس سو سے زیادہ افراد آن واحد میں راکھ کے ڈھیر بنا دیے گئے۔ اسی راکھ میں ایک خوبصورت، خوب سیرت، معصوم مسکراتی ہوئی بچی بھی شامل تھی جو ایک معروف سیاسی راہنما اور ٹیکنوکریٹ کی بیٹی تھیں۔ یہ ایک اسکول ٹیچر تھی اور دھرنے میں شریک خواتین کو سہولتیں پہنچانے کے لیے دوڑتی بھاگتی نظر آتی تھیں۔ نام تھا اسما بلتاجی جو اخوان المسلمون کے راہنما محمد بلتاجی کی بیٹی تھیں۔ اسما کی شہادت نے دنیا میں لاتعداد حساس دلوں کو رلایا اور افسردہ کیا ہوگا۔ سوال بھی اُٹھا ہوگا کوئی ریاست اتنی بے رحم ہو سکتی ہے کہ اسما بلتاجی جیسی معصوم بچی کی راکھ پر اپنے اقتدار کا سنگھاسن سجالے؟ خدا جانے پاکستان اور مصر کا مقدر کیوں ایک سا لکھ دیا گیا۔ شاید اس لیے کہ مدتوں پہلے جو منصوبے بنائے گئے تھے ان میں مصر کی آزاد روی استحکام میں اسرائیل کی کمزوری اور پاکستان کی طاقت استحکام اور آزاد روی میں بھارت کی کمزوری کو دیکھا جاتا ہے۔ وقت کی راہوں پر چلتے چلتے یہ کہانی اس وقت کھل گئی تھی جب نائن الیون کے بعد امریکا نے اسرائیل کے بعد بھارت کو اپنا تزویراتی شراکت دار بنا دیا۔
نائن الیون کے بعد امریکی ڈیپ اسٹیٹ نے مسلم دنیا میں بادشاہتوں اور آمریتوں کو ختم کرکے جمہوریت متعارف کا راستہ اپنایا اسی دوران عرب بہار چل پڑی اور عرب دنیا کے آمر خزاں گزیدہ پتوں کی طرح ایک ایک کرکے گرتے چلے گئے۔ مصر جمہوریت کی خواہش اور کوشش کا لٹمس ٹیسٹ تھا کیونکہ مصر میں آمریت کے ڈھکن کے نیچے ایک ایسی سیاسی قوت اخوان المسلمون کا طوفان تھا جو مغرب اور مصر کا ایک ہمسایہ ملک کے لیے سرخ رومال کی حیثیت رکھتی تھی۔ بعد میں یہی ہوا حسنی مبارک کی آمریت کی راکھ پر اخوان المسلمون کی جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ محمد مرسی مصر کے پہلے منتخب صدر قرار پائے۔ یہ سب کچھ پلک جھپکتے ہوگیا وگرنہ مصر کی مقتدرہ کبھی بھی اس انقلاب کو برپا نہ ہونے دیتی۔ اِدھر محمد مرسی صدر منتخب ہوگئے اُدھر مصری مقتدرہ، اس کے چند ہمسایہ ملکوں کو اپنی غفلت کا احساس ہوگیا اور وہ اپنی غلطی کو سدھارنے میں جت گئے۔ ہر ایک نے اپنے سیاسی اثاثے محمد مرسی کے خلاف استعمال کرنا شروع کیے۔ محمد مرسی کے خلاف ایک پوسٹر بوائے ڈھونڈا گیا۔ اس کے لیے قرعہ ٔ فال مغرب کے ایک ایسے وفادار شخص کے نام نکلا جو نوے کی دہائی میں ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے کی حیثیت سے صدام حسین کے بستر کے نیچے کیمیائی ہتھیار تلاش کرتے رہے۔ آخر کار وہ وقت آہی
گیا جب ایک سال مکمل ہونے سے پہلے عالمی اور وعلاقائی طاقتوں، بھائیوں اور برادران یوسف نے مل جل کر اپنی غفلت کی اصلاح کرکے محمد مرسی کو اقتدار سے برطر ف کر دیا۔ یہیں سے اسما بلتاجی نامی بچی بھی دنیا کے سامنے آگئی۔ پھر محمد بلتاجی نے اپنی بیٹی کے نام ایسا خط لکھا جو آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے اور دلوں کو چیرتا ہے۔ رابعہ العدویہ کی قتل گاہ میں چند گھنٹوں میں بائیس سو افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا اور اگلے چند گھنٹوں میں چوک اور سڑکوں کو دھو دھا کر شیشے کی طرح چمکا دیا گیا۔ کچھ یہی کہانی کوٹلی سیتیاں کے انیس ستی اور اس کے والد شہزاد ستی کی ہے۔ جو اپنے ملک میں بحالی جمہوریت، شہری آزادیوں، آئین کے تحفظ کے خواب سجائے بھنے ہوئے چنے اور پانی کی بوتل کا سامان لیے اسلام آباد کے ہائی سیکورٹی زون میں آئین کے تحت حاصل پرامن احتجاج کا حق اس زعم کے ساتھ استعمال کرنے آیا کہ دشمن کے بچوں کو پڑھانے کی خواہش مند ریاست اسے بھی اپنی بانہوں میں سمیٹ لے گی۔
پاکستان میں رجیم چینج کے بعد مجھے فرائیڈے اسپیشل میں جناب مسعود ابدالی کے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ایک کالم سے انداز ہوا کہ مصر میں محمد مرسی کے خلاف سیاسی اور عسکری بغاوت کے اصل حکمت کار امریکی اہلکار پاکستان میں سفیر بنا کر بھیج دیے گئے ہیں اور میرا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا کہ پاکستان مصر طرز کے خونیں حالات کی طرف جائے گا۔ یہ صاحب صرف مصر ہی سے تجربہ حاصل کیے ہوئے نہیںتھے بلکہ تیونس میں بہت سی آئینی پیچیدگیوں کو سلجھا چکے تھے اور قذافی کے خلاف بغاوت کو بھی منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کرچکے تھے اور اسی لیے انہیں مشرق وسطیٰ کے امور کا ماہر کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی آزاد اُڑانیں، بلند خواب، حقیقی جمہوریت، آئین اور قانون کی چھائوں میں جینے کی طلب میں نجانے کیوں عالمی قوتوں کو بھارت کے لیے خطرہ نظر آتا ہے۔ یہاں کیوں جمہوریت ہو ؟۔ جمہوری کہتے ہیں گھاس کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے۔ جمہوری کہتے ہیں اب ہم آپ کی کسی جنگ کا ایندھن نہیں بنیں گے اور آمریت نیم شب کی ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوجاتی ہے۔ آپ کا فخر امتیاز سر اُٹھا کر چلنے کی خواہش انہیں انتشار اور فتنہ نظر آتا ہے اور انہیں یہ سب کچھ اپنے لکھے اور تھمائے ہوئے اسکرپٹ سے انحراف کھائی دیتا ہے۔ روبعہ العدویہ اسکوائر کے اس مختصر سے پس منظر میں روز اوّل سے پاکستان کے رواں حالات میں خون اور بارود ہی دکھائی دیتا تھا۔ جلے ہوئے خیمے، تنی ہوئی بندوقیں، آہ وبکا دھواں اور شعلے ہی دکھائی دے رہے تھے۔ آخر کار ڈی چوک پاکستان کا ’’رابعہ العدویہ‘‘ بن گیا۔ انیس شہزاد کا والد جب اپنے بیٹے کے خوابوں کی بات کرتا ہے تو مجھے محمد بلتاجی کا بیٹی کے نام خط یاد آتا ہے۔ ڈی چوک آپریشن کے بعد جس طرح میڈیا کو ٹھٹھے مذاق پر لگا دیا گیا وہ شقاوت قلبی کا الگ ہی انداز لیے ہوئے ہے۔ مذاق ان کا اُڑایا جارہا ہے جو تین سپر طاقتوں کو تاریخ کا مذاق بنا چکے ہیں۔ اللہ ہماری عرب شہزادی اسما بلتاجی اور عجمی خاک نشین انیس شہزاد دونوں کی مغفرت فرمائے دونوں ایک ہی ذہنیت کا شکار ہوئے۔