جدید مغربی تہذیب کی ہلاکت آفرینی

117

پوری انسانیت نے سرد جنگ کا زمانہ ایٹمی جنگ کے خوف میں بسر کیا۔ امریکا دوسری عالی جنگ میں دو بار ایٹم بم استعمال کر چکا تھا، اس لیے ایٹم بم کے مزید استعمال کا خوف کوئی علمی مفروضہ نہیں ایک زندہ حقیقت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایٹمی جنگ کے خوف نے مغرب میں اچھا خاصا ادب تخلیق کیا۔ اخبارات و جرائد میں اس خوف کے حوالے سے کروڑوں نہیں تو لاکھوں مضامین تو ضرور ہی شائع ہوئے ہوں گے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے مورخین بتاتے ہیں کہ امریکا اور روس کے درمیان کئی مراحل ایسے آئے جب محض غلط فہمی کی وجہ سے ایٹمی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔

ایٹم بم جدید مغربی ذہن کی تخلیق ہے اور یہ صرف جدید مغربی ذہن ہی کی تخلیق ہو سکتا ہے ورنہ قدیم مذہبی تہذیبوں میں انسان نے ہلاکت آفرینی کے کئی امکانات تلاش کیے مگر ان کو بروئے کار لانے سے انکار کر دیا۔ چینی تہذیب میں دو ہزار سال پہلے الفرڈ نوبل پیدا ہوسکتا تھا لیکن چین کے روایتی شعور نے اس دریافت کو استعمال کرنے کو ’’گناہ‘‘ سمجھا جسے الفرڈ نوبل نے سر کا تاج بنالیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود الفرڈ نوبل کے نام پر امن کا نوبل انعام دیا جاتا ہے۔ چینی دو ہزار سال پہلے بارود کو پی گئے۔ جدید مغربی انسان کے بارود نے پوری دنیا میں آگ لگا دی۔ اس کے بعد مغرب میں ایٹم بم ایجاد نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا…؟ بی فاختہ؟ خیر سے کم نسب مغربی شعور نے یہ کام بھی کر دکھایا۔ اقوام متحدہ مغرب کی بی فاختہ ہی تو ہیں۔ مغرب نے بی فاختہ ایجاد کی اور اسے ایٹم بموں کے ڈھیر پر بٹھا دیا۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرد جنگ ختم ہو گئی مگر ایٹمی جنگ کا خوف اب بھی موجود ہے۔ لیکن جدید مغربی تہذیب نے صرف ایٹمی جنگ کا خوف ہی ایجاد نہیں کیا، جدید مغربی تہذیب نے استبداد کے دیو کو جمہوری لباس پہنایا اور اسے آزادی کی نیلم پری قرار دیا۔ آزادی کی نیلم پری جنس میں ظاہر ہوتی تو آزادانہ جنسی تعلقات کی فصل لہلہاتی، لیکن مغرب کے موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو یہ جنسی آزادی بھی ’’معصومانہ‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے کہ اب امریکا اور مغربی و مشرقی یورپ میں کروڑوں ہم جنس پرست مرد اور کروڑوں ہم جنس پرست عورتیں موجود ہیں۔ امریکا اور یورپ بالخصوص اسکینڈی نیویا کے ملکوں میں Incest یعنی تحریم کے رشتوں میں جنسی تعلق ایک تازہ ترین رجحان بن کر پھیل رہا ہے اور اِدھر ہمارے یہاں سیکولر بھیڑیے، لبرل گینڈے اور اسلامی فاختائیں اپنے اپنے انداز میں مگر کسی نہ کسی سطح پر یک جا ہو کر مغرب کے لیے کورس الاپ رہے ہیں۔

اس کورس کے درمیان برطانیہ کے ممتاز سائنس دان سر ڈیوڈ کنگ نے یہ کہہ کر نقار خانے میں توتی کی آواز کی مثال پیش کی ہے کہ مغرب کی نام نہاد صنعتی ترقی روئے زمین اور اس پر انسانوں کی سب سے بڑی دشمن بن چکی ہے۔ سر ڈیوڈ کنگ کی تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مغرب کے کارخانوں، گاڑیوں اور ائر کنڈیشنروں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں نے زمین کے درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ حرارت میں اضافے سے وہ برف بھی پگھل رہی ہے جو پہلے کبھی نہیں پگھلی تھی، جس سے ایک جانب سمندر کی سطح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے اور دوسری جانب غیر معمولی تغیرات رونما ہونے کا خدشہ حقیقت بن کر سامنے آکھڑا ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جدید مغربی تہذیب نے ایٹمی جنگ کے بغیر بھی انسانیت کو بقا کے مسئلے سے دوچار کر دیا ہے۔ سیکولر بھیڑیوں، لبرل گینڈوں اور اسلامی فاختاؤں سے معذرت کے ساتھ، یہ خطرہ نمودار ہونے والا نہیں ہے، نمودار ہو چکا ہے۔

سر ڈیوڈ کنگ کی رپورٹ کے مطابق زمین کے درجہ حرارت میں مزید ایک ڈگری کے اضافے سے جو چند ’’معمولی نتائج‘‘ برآمد ہوں گے، وہ یہ ہیں: مزید40 کروڑ افراد بھوک کے مسئلے سے دوچار ہو جائیں گے، 40 کروڑ ٹن چاول کم پیدا ہونے لگے گا، مزید 3 ارب انسانوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نہیں ہو سکے گا کیونکہ سمندر کی سطح کی بلندی پینے کے پانی کے بہت سے موجود وسائل کو ہڑپ کر جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق یہ معمولی باتیں آئندہ 20 سال میں وقوع پزیر ہو جائیں گی۔ بلکہ ماحولیات کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مدت محض 8 سے 10 سال بھی ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق آئندہ سو سال میں زمین کا درجہ حرارت مزید 3 ڈگری بڑھنے کا قوی اندیشہ ہے۔ محض ایک ڈگری سے قیامت مچ جائے گی تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مزید 2 ڈگری سے دُنیا کا حال کیا ہو گا؟ برصغیر اور افریقا کے بعض ملکوں کے لیے ’’خوشخبری‘‘ یہ ہے کہ درجہ حرارت میں ایک ڈگری اضافے سے سب سے زیادہ جنوبی ایشیا اور افریقا متاثر ہوگا۔ آئیے اسلامی اور مغربی تہذیب میں مماثلتیں، قربتیں اور بھائی چارہ تلاش کرنے کا عمل تیز کر دیں۔

بعض لوگوں کا نہایت ہی مذہبی خیال یہ ہے کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا جس طرح مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آیا ہے۔ لیکن حضور والا فضا کو سب سے زیادہ آلودہ کرنے والے امریکا نے گرین ہاؤسز گیسوں میں کمی کے بین الاقوامی معاہدے کیوٹو پروٹوکول پر دستخط سے صاف انکار کر دیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس سے اس کی قومی ترقی یا شرح نمو کم ہو جائے گی اور وہ ترقی و خوش حالی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔ مغرب کے جن ملکوں نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، وہ بھی نیم دلی کے ساتھ معاہدے پر عمل کر رہے ہیں۔ ایک اور خوش خبری یہ ہے کہ چین اور بھارت بڑے صنعتی ملک بن کر ابھر رہے ہیں اور خیر سے ان کی ترقی فضا کو مزید زہر سے بھر دے گی۔ ماہرین آئے دن خبر دار کر رہے ہیں کہ اگر زہریلی گیسوں کا اخراج آج روک دیا جائے تو بھی قدرتی آفتوں کا ایک حصہ نازل ہو کر رہے گا کیونکہ ترقی یافتہ ملک پہلے ہی فضا کو زہر سے بھر چکے ہیں اور جیسا کہ ظاہر ہے ماحول کی تباہی کا یہ سلسلہ رکنے والا نہیں اور جب چین اور بھارت جیسے بڑے ملک بھی اس دوڑ میں پوری طرح شریک ہو چکے ہوں گے اور مقابلے کا بازار مزید گرم ہو چکا ہوگا تو حرص و ہوس میں ڈوبا ہوا مغربی شعور انسانیت کی بقاء کے سوال پر غور کے لیے کتنا تیار ہو گا؟ واضح رہے کہ مغرب اب جغرافیائی حقیقت نہیں، ایک ذہنی و نفسیاتی حقیقت ہے اور چین اور بھارت بھی اب مغرب کی توسیع کے سوا کچھ نہیں۔

جدید مغربی شعور نے چند صدیوں میں دنیا کو ہر اعتبار سے جہنم بنا دیا اور اب وہ ترقی کے نام پر پوری انسانیت کے لیے قیامت ایجاد کر چکا ہے۔ جدید مغرب نے زندگی کے کسی سرچشمے کو پاک صاف نہیں رہنے دیا۔ مگر اس کا کمال یہ ہے کہ وہ ایٹم بم پر فاختہ بٹھا دیتا ہے اور قیامت پر ترقی کا لیبل چڑھا دیتا ہے۔ چنانچہ قیامت سامنے کھڑی ہے اور اکثر کو نظر نہیں آرہی۔ سامریت زندہ باد۔