ہم نے 24 نومبر سے پہلے لکھے گئے کالم میں عرض کیا تھا کہ عمران خان نے اپنی رہائی اور عوامی مینڈیٹ کی واپسی کے لیے 24 نومبر کو پوری قوم سے باہر نکلنے اور ڈی چوک اسلام آباد پہنچنے کی اپیل کی ہے اور اسے اپنی ’’فائنل کال‘‘ قرار دیا ہے۔ ہمارا مؤقف تھا کہ پاکستانی قوم ہے کہاں؟ یہ تو مختلف قومیتوں، قبیلوں، گروہوں اور مسلکوں میں بٹی ہوئی ہے۔ چنانچہ یہی ہوا، اس بکھری ہوئی قوم نے عمران خان کی فائنل کال پر کان نہ دھرا البتہ ان کے پرستاروں کی ایک بڑی تعداد نے جس میں زیادہ تر نوجوان شامل تھے فائنل کال پر لبیک کہتے ہوئے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیا۔ یہ لوگ مختلف شہروں اور صوبوں سے بسوں، ٹرکوں، ذاتی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے ذریعے قافلوں کی صورت میں اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے اور راستے کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی منزل کے قریب پہنچ گئے۔ ان میں سب سے بڑا قافلہ پشاور سے تھا جس کی قیادت عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ پختون خوا علی امین گنڈا پور کررہے تھے۔ بشریٰ بی بی غیر اعلانیہ طور پر پارٹی کی قیادت بھی کررہی تھیں انہوں نے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ مظاہرین کی مقررہ تعداد کو لے کر اسلام آباد پہنچیں جو رکن اسمبلی ایسا نہیں کرے گا اس کا نام پی ٹی آئی کے ارکان کی فہرست سے نکال دیا جائے گا اور آئندہ انتخابات میں اسے ٹکٹ نہیں ملے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس ہدایت پر کس حد تک عمل ہوا لیکن یہ احتجاجی مارچ بہت موثر تھا اور 24 نومبر کو رات گئے تک قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا بلکہ دور دراز سے آنے والے قافلے 25 نومبر کو اسلام آباد پہنچے۔ اسلام آباد اور خاص طور پر ڈی چوک قافلے 25 نومبر کو اسلام آباد پہنچے۔ اسلام آباد اور خاص طور پر ڈی چوک اگرچہ کنٹینروں کی اونچی دیوار کے حصار میں تھا لیکن پرجوش مظاہرین کے سونامی نے اس دیوار کو روند ڈالا اور پولیس، رینجرز اور فوج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چوک پر قابض ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ صورت حال دیکھ کر فوج پیچھے ہٹ گئی اور اس کی طرف سے لائوڈ اسپیکر پر اعلان کیا گیا کہ مظاہرین پُرامن رہیں، فوج ان پر گولی نہیں چلائے گی۔ اس اعلان کا زبردست خیر مقدم کیا گیا اور ’’پاک فوج زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔
دوسری طرف پشاور سے جب سب سے بڑا قافلہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کی قیادت میں اسلام آباد پہنچا تو اس وقت مظاہرین کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ اس موقع پر بشریٰ بی بی نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک عمران خان کو رہا نہیں کیا جاتا ہم اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے لیکن پھر ہوا یہ کہ 26 نومبر کی شام تک بشریٰ بی بی سمیت پی ٹی آئی کی ساری قیادت اسلام آباد سے فرار ہوچکی تھی۔ ڈی چوک میں وہی لوگ تھے جو دور دراز علاقوں سے اسلام آباد آئے تھے اور ان کے پاس سرچھپانے کی کوئی جگہ نہ تھی، وہ اس اُمید پر وہاں ڈٹے ہوئے تھے کہ کچھ دیر بعد ان کا لیڈر اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر ان کے درمیان موجود ہوگا اور وہ اس کے ہمراہ نعرے لگاتے ہوئے اس ظالمانہ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے لیکن ایوان اقتدار کے بالا خانوں میں ان سے ڈی چوک کو خالی کرانے کے لیے کوئی اور فیصلہ ہوچکا تھا۔ چنانچہ جب رات بھیگنے لگی تو اچانک پورے علاقے کی بجلی بند کردی گئی، ہر طرف اندھیرا چھا گیا اور اس اندھیرے میں فائرنگ کی آواز گونجنے لگی۔ اسلام آباد والے کہتے ہیں کہ کبھی ایسا اس کے پہلے لال مسجد کے محصورین کے ساتھ کیا گیا تھا لاشین ٹھکانے لگادی گئیں تھیں۔ پی ٹی آئی کے لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ ہمارے 273 افراد مارے گئے ہیں جبکہ سیکورٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نہ کوئی آپریشن ہوا ہے نہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ وزیرداخلہ کہتے ہیں کہ اگر لاشیں گری ہیں تو اس کا ثبوت پیش کرو جبکہ وزیراعظم پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرین کو لشکر سے تعبیر کرتے ہوئے اس کا قلع قمع کرنے پر آرمی چیف کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ ہم نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا یہ ساری باتیں اخبارات میں رپورٹ ہوچکی ہیں۔
فائنل کال کا جو حشر ہوا ہے اسے دیکھ کر یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ عمران خان تو جیل میں ہیں انہیں باہر کے حالات کا صحیح اندازہ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی جو قیادت باہر ہے اس میں کوئی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ اس نے فائنل کال کو منظم کرنے اور کارکنوں کی رہنمائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی، انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جس کا نتیجہ ایک بڑے سانحہ کی صورت میں نمودار ہوا۔ اب پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو کیا ملک سے مزاحمت کی سیاست کا خاتمہ ہوجائے گا؟ مزاحمتی سیاست تو جماعت اسلامی بھی کررہی ہے، مولانا فضل الرحمن بھی کررہے ہیں، بلوچ اور پٹھان بھی کررہے ہیں۔ ملک میں جمہوری قدروں کو پامال کیا جائے گا اور ووٹ کی بے حرمتی کی جائے گی تو پھر مزاحمت تو ہوگی۔ تحریک انصاف کو ختم کرنے سے مزاحمت ختم نہیں ہوگی بلکہ اس میں مزید شدت آئے گی اور قابضین اقتدار اس کی تاب نہ لاسکیں گے۔ حکمران اس وقت طاقت کے نشے میں مست ہیں لیکن کب تک؟ یہ نشہ اُترے گا تو ان کو دن میں تارے نظر آئیں گے۔ میر نے سچ کہا ہے
کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا
اب تو چُپ بھی رہا نہیں جاتا