اسرائیل کی جارحیت جاری

63

امریکی سرپرستی میں اسرائیل کی دہشت گردی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ مسلسل اسرائیلی جارحیت نے غزہ اور لبنان میں انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔ غزہ کی پٹی جو پہلے ہی محاصرے کا شکار تھی، اب ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے، جہاں بمباری نے بے گناہ بچوں، خواتین اور بزرگوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کا یہ سلسلہ جو کئی دہائیوں سے جاری ہے، اب ننگی جارحیت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ لبنان میں اسرائیل کی طرف سے ہونے والے فضائی حملوں نے مزید 78 افراد کی جان لے لی، جبکہ غزہ میں 42 فلسطینی شہید ہوگئے۔ ان حملوں نے یہ واضح کردیا کہ اسرائیل نہ صرف جنگ بندی کے معاہدوں کو نظرانداز کررہا ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کو بھی پیروں تلے روند رہا ہے۔ یہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کا مقصد صرف فلسطینی عوام کو زیر کرنا نہیں، بلکہ انہیں مکمل طور پر مٹانا ہے۔ عالم ِ اسلام بت بنا ہوا ہے اور کچھ کرنا تو دور کی بات، اب بولنے سے بھی قاصر ہے۔ کوئی اجتماعی لائحہ نہیں بن سکا ہے کہ کس طرح اس دہشت گردی کو روکا جائے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی بے بسی اس بحران میں مزید دکھ بھری حقیقت ہے۔ مظلوم مسلمانوں کو چن چن کر پوری دنیا میں نشانہ بنایا جارہا ہے، مسلم عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ایک بار پھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ میں انسانی امداد کی ضرورت پر زور دیا ہے، لیکن اُن کے بیانات عملی اقدامات سے عاری ہیں۔ فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کے بیانات، جن میں حقوق، انصاف اور خودمختاری کی بات کی جاتی ہے، محض رسمی گفتگو بن کر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے بیانات جنگ کے خاتمے کے بجائے مزید تباہی کے ارادے ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ حماس کا خاتمہ ضروری ہے لیکن وہ تاحال اپنے قیدیوں کو چھڑانا تو دور کی بات، ان کا ٹھکانا بھی معلوم نہیں کرپائے ہیں۔ غزہ میں فائر بندی کے مطالبے کو انہوں نے جنگ کے خاتمے سے الگ قرار دیا، جو اسرائیلی جارحیت کے جاری رہنے کا واضح اشارہ ہے۔ اسرائیل کے حملے صرف غزہ تک محدود نہیں، بلکہ لبنان اور یمن کے محاذوں پر بھی جاری ہیں۔ حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی جارحیت مسلسل جاری ہے جبکہ یمن سے حوثی مزاحمت کاروں کے حملے اسرائیل کے لیے مشکلات کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ان حملوں نے خطے میں ایک نئی صورتِ حال پیدا کردی ہے، جس کا اثر پورے مشرق وسطیٰ پر ہوسکتا ہے۔ امکان اس بات کا ہے کہ اب عرب و دیگر ممالک میں مزاحمتی تحریکیں پروان چڑھیں گی اور تماشا دیکھنے والے بھی مشکل میں پڑیں گے۔ عالمی برادری کو اس ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ لبنان اور فلسطین میں جو ظلم ہوسکتا تھا، وہ ہوچکا ہے، اب ان کے پاس قربان کرنے کے لیے کچھ نہیں، لیکن یہ دائرہ بڑھے گا تو دنیا بھی سکون سے نہیں رہ پائے گی۔ فلسطینی عوام جو قحط، بے گھری اور بمباری کا شکار ہیں، ہماری فوری مدد کے مستحق ہیں۔ اگر آج عالمی برادری اسرائیل کی اس ننگی جارحیت کو روکنے میں ناکام رہی تو کل یہی ظلم کسی اور قوم پر ہوگا۔ فلسطین کا مسئلہ محض جغرافیہ یا سیاست کا نہیں، بلکہ انسانیت کا سوال ہے۔ غزہ میں معصوم بچوں کی چیخیں، لبنان کے شہداء کی لاشیں، اور یمن کے جنگجوؤں کی مزاحمت ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ یہ وقت ہے کہ دنیا اپنی بے حسی کے خول سے نکلے اور انسانیت کے لیے کھڑی ہو۔ تاریخ ان لمحوں کو یاد رکھے گی، اور ہماری خاموشی یا عمل اس کے صفحات پر رقم ہوگا۔