کراچی ( رپورٹ : سید وزیرعلی قادری) پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات ایک گہری تشویش کا باعث ہیں۔ یہ موضوع ہمیشہ بحث کا محور رہا ہے، لیکن حالیہ شدت نے ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیا ہے کہ ان واقعات کی اصل ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ جسارت کی جانب سے مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں اور اسکالرز سے اس بارے میں سوال کیا گیا۔ ان کے جوابات ایک وسیع تناظر کو اجاگر کرتے ہیں، جس میں حکومتی پالیسیاں، عوامی مسائل، داخلی و خارجی عوامل شامل ہیں۔جسارت کے سوال پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کاذمے دار کون ہے پر گفتگو کرتے ہوئے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کی جڑیں: حکومتی پالیسیاں اور قیادت کی ناکامیاں ہیںان کے مطابق، دہشت گردی کے موجودہ بحران کی بنیاد سول اور فوجی حکومتوں کی عوامی امنگوں کے برخلاف پالیسیاں ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے وژن کو نظرانداز کیا گیا، جس کے نتیجے میں 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی جیسے سانحات رونما ہوئے۔ بعدازاں، اقتدار کے حصول کی جنگ نے باقی ماندہ ملک کو بھی سیاسی و معاشی بحران میں مبتلا رکھا۔ 2001ء میں امریکا کی نام نہاد “وار آن ٹیرر” میں شامل ہونے کا فیصلہ، جنرل مشرف کی قیادت میں کیا گیا، جس نے پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بننے پر مجبور کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ملک قتل و غارت گری کا شکار ہوگیا۔ 80 ہزار سے زائد جانوں کا ضیاع ہوا، جبکہ دہشت گردی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔لیاقت بلوچ نے زور دیا کہ اس مسئلے کی جڑیں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی غلط پالیسیوں میں پیوست ہیں، جن کے نتائج عوام، سیکورٹی فورسز اور دیگر اداروں کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔جماعت اسلامی سندھ کے سابق امیر محمد حسین محنتی نے دہشت گردی کے فروغ میں لسانیت کو ایک اہم عنصر قرار دیا۔ ان کے مطابق، مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی “بنگلا دیش ازم”، ایم کیو ایم اور اے این پی کی لسانی تحریکوں نے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچایا۔ ان تحریکوں کے زیر اثر دہشت گردی کے رجحانات کو بڑھاوا ملا۔محنتی نے یہ بھی کہا کہ ہماری ایجنسیوں نے دہشت گردوں کو بعض مواقع پر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ آج خیبر پختونخوا، بلوچستان اور دیگر علاقے بدامنی کا شکار ہیں، لیکن ان واقعات کو روکنے کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔جماعت اسلامی ممبر صوبائی اسمبلی سندھ محمد فاروق فرحان نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے نظام انصاف کی ناکامی کو دہشت گردی کے فروغ کی بڑی وجہ قرار دیا۔ ان کے مطابق، انصاف کی عدم فراہمی ریاست کی ناکامی کا مظہر ہے، جو عوام میں بے چینی اور شدت پسندی کو بڑھاوا دیتی ہے۔محسن نقوی نے اپنی رائے میں کہا کہ سیاست دانوں، آمروں اور عدلیہ کے ججوں نے اپنی ذمہ داریوں میں غفلت برتی۔ انہوں نے آئین کا احترام نہیں کیا، حب الوطنی کے تقاضے پورے نہیں کیے، اور اپنی انا کو ملکی مفادات پر فوقیت دی۔ نتیجتاً، پاکستان آدھا ملک گنوا کر بھی استحکام حاصل نہ کر سکا۔پروفیسرسیماناز صدیقی نے کہا کہ بین الاقوامی مداخلت اور استعماری سازشوں کے باعث ملک انارکی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ان کے مطابق، 1980ء کی دہائی میں افغانستان جنگ میں شمولیت سے موجودہ دہشت گردی کی بنیاد رکھی گئی۔ سویت یونین کے خلاف مجاہدین کو تربیت دینا اور پھر ان کے بے قابو ہوجانے سے پاکستان میں شدت پسندی کو فروغ ملا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اسے بیرونی طاقتوں کے لیے پرکشش بناتی ہے۔ بھارت، امریکا اور دیگر عالمی قوتیں شدت پسندی کو ہوا دے کر اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے فروغ میں تعلیم کی کمی، غربت اور کرپشن نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ناخواندہ افراد شدت پسند گروہوں کے لیے آسان شکار بن جاتے ہیں۔ خاندانی سیاست، سیاسی عدم استحکام، اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار نے حالات کو مزید پیچیدہ بنایا۔تمام رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس، طویل المدتی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ تعلیم، انصاف، روزگار اور امن کے فروغ پر مبنی پالیسیاں ترتیب دی جانی چاہئیں۔قومی قیادت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر ایک متفقہ حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔ آئین کی بالادستی، آزاد عدلیہ، اور جمہوری رویوں کا فروغ ہی پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔دعا: اللہ تعالیٰ پاکستان کو دہشت گردی سے نجات عطا فرمائے اور قومی یکجہتی کو مضبوط کرے۔ آمین۔