لاہور (نمائندہ جسارت) قائمقام امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی ذکر اللہ مجاہد، سیکرٹر ی جنرل ڈاکٹر بابر رشید، صوبائی سیکرٹری اطلاعات محمد فاروق چوہان اور ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات محمد عمران الحق نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی گرفتاری پر اپنا ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، صحافیوں پر مقدمات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، پی ڈی ایم ٹو کی حکومت ایسے اقدامات کرکے اپنی نا اہلیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتی، ملک اس وقت حکمرانوں کے مایوس کن اقدامات کی بدولت آگ میں جل رہا ہے لیکن مجال ہے کہ کسی کے کانوں پر جوں تک رینگتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ فریڈم نیٹ ورک کی 2 نومبر کو منائے جانے والے صحافیوں کے خلاف جرائم سے استثناٰ کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2024 میں پاکستان میں 6 صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ 11 کو قتل کرنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق نومبر 2023 سے اگست 2024 کے دوران مطابق صحافیوں کے خلاف 57 واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ 21 واقعات سندھ، 13 واقعات پنجاب میں ریکارڈ کیے گئے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں 12، خیبر پختونخوا میں 7 جبکہ بلوچستان میں 2 واقعات رپورٹ ہوئے، خواتین صحافیوں کو بھی مختلف عناصر کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام اور قانون کی گرفت سے محفوظ رہنے کا تسلسل، صحافیوں کے خلاف موجودہ تشدد کو آگے بڑھا رہا ہے، بد قسمتی سے موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہے، پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست روی بھی جاری ہے اور ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کو فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارمز تک رسائی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، حکومت اپنے غیر آئینی اقدامات کرکے لوگوں سے معلومات تک رسائی کے ذرائع چھین لینا چاہتی ہے۔