غیرملکیوں کی سیاسی اجتماعات میں شرکت غیر قانونی ہے، دفترخارجہ

51

لاہو ر (نمائندہ جسارت)نائب امیر جماعت اسلامی، سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہخیبرپختونخوا ضلع کرم کی تحصیلوں سدہ اور پارا چنار میں قبائلی، فرقہ وارانہ محاذ آرائی کی پرانی تاریخ ہے، حکومتوں، سیکورٹی حکمت کاروں کی عدم توجہی اور بیرونی ممالک کے مفادات کی سہولت کاری نے حالات کو تباہی سے دوچار کرکے اس نہج پر پہنچایا ہے۔ وقفوں کے ساتھ شدت، فرقہ واریت اور قبائلی تعصبات کی آگ بھڑکتی ہے تو لاتعداد گھرانے برباد ہوتے ہیں۔ مستقل امن کے لیے شیعہ سُنی مسالک کے اکابر علما، صوبائی، مقامی سیاسی قیادت اور حکومتی سیکورٹی اداروں کے معتبرین کو مل کر مستقل بنیاد پر پُرامن اور عملدرآمد کی حکمت عملی بنانا قومی انسانی فریضہ ہے۔ عالمی استعماری قوتوں کی نئی صف بندی کے تناظر میں اسلحہ و گولہ بارود، اقتصادی تعلق اور پابندیاں، دہشت گردی کا پھیلاؤ، دہشت گردی کے لیے موجود افراد کی سرپرستی کا شرمناک سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا، پاکستان کے ایران، افغانستان، چین، سعودی عرب سے تعلقات کو سرد مہری، کشیدگی اور شکوک و شبہات کا شکار کرنا عالمی استعماری قوتوں کے گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ ایسی صورتِ حال میں قومی سیاسی جمہوری قیادت اور ریاست مقتدر اداروں کو حالات کا صحیح ادراک کرتے ہوئے قومی سلامتی کے تحفظ اور پاکستان کے استحکام پر مبنی فوری اقدامات کرنا ہوںگے، لمحہ بھر کی تاخیر اور غلط سمت میں کیے گئے اقدامات طویل مدت کے لیے بحران در بحران پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔اسلام آباد میں سینئر صحافیوں، دھرنے کی کوریج کرنے والے میڈیا رپورٹرز، سیاسی، سماجی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے لیاقت بلوچ نے کہا کہ پاکستان کی ہر سیاسی، جمہوری جماعت اور ہر فرد کو بھی آئینی جمہوری بنیادی حقوق کے تحت پُرامن احتجاج کا حق ہے۔ ریاست، حکومت، بالادست قوتیں طاقت اور لاقانونیت سے کسی بھی احتجاج کو دبائیں یا کچل دیں تو یہ ریاست اور حکومت کے لیے بالآخر تباہ کن نتائج کا باعث بنتا ہے۔ آئین، قانون اور جمہوری اقدار کی پاسداری تمام اسٹیک ہولڈرز کی قومی ذمے داری ہے، اِسے فرد، گروہ، پارٹی، حکومت یا ریاست پامال کرے تو وہ اپنے اپنے دائرے میں برابر کی ذمے دار ہیں۔ بحرانوں کی زد میں پاکستان کے تحفظ کا واحد راستہ آئین کی عملداری، آزاد عدلیہ اور پائیدار و بااعتماد جمہوری رویوں کا فروغ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی فائنل کال احتجاج کا اختتام ہوگیا، ملک افواہوں، پروپیگنڈے اور یکطرفہ من پسند خبروں کے پھیلاؤ کی زد میں ہے اور مجموعی طور پر دونوں اطراف سے سچ نہیں بولا جارہا۔ ایک طرف پی ٹی آئی قیادت نے احتجاج کا بڑا اعلان تو کردیا لیکن اُس کے تقاضے پورے نہیں تھے تو دوسری طرف حکومت اور سیکورٹی فورسز نے پُرامن احتجاج کو بڑے مقاصد کے حصول کے لیے پُرتشدد بنایا۔ پی ٹی آئی کی صفوں میں انتشار پر مبنی فِکر نے حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور سیکورٹی فورسز کو ہر طرح کے مواقع فراہم کردیے۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے مخلص کارکنان خصوصاً خیبرپختونخوا کے نوجوانوں نے بڑی محنت، جدوجہد اور استقامت کا مظاہرہ کیا، آنسوگیس، لاٹھی چارج اور فائرنگ کی زد میں آئے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق زخمی تو بڑی تعداد میں ہوئے، البتہ پی ٹی آئی ورکرز، رینجرز اور پنجاب پولیس کی ملاکر کل 8 شہادتیں بھی ہوئیں، اس طرح کُل 8 قیمتی جانیں تشدد کا شکار ہوگئیں۔ کریک ڈاؤن کے بعد یہ المناک پہلو اُبھرا ہے کہ پی ٹی آئی کی صفوں میں بے اطمینانی اور قیادت پر بے اعتمادی پیدا ہوئی۔ سیاست، جمہوریت کمزور ہوئی، پُرامن جمہوری مزاحمت کو پُرتشدد بنانے کا ریاست کے پاس حربہ آگیا۔ قومی سیاسی قیادت کو بحران کے خاتمے، سیاسی کارکنان کو مایوسیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قومی سیاسی ڈائیلاگ کرنا ہوگا۔خیبرپختونخوا ضلع کُرم اور بلوچستان میں جاری کشیدگی، دہشت گردی کے حوالے سے لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ کُرم، سدہ، پارا چنار میں قتل و غارت گری، بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات نے پورے ملک میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام جہاں قومی سلامتی، دہشت گردی کے خاتمے اور اقتصادی استحکام کے لیے ضروری ہے وہیں فلسطین و کشمیر کے مسائل کے تناطر میں بھی اس کی اشد ضرورت ہے۔ اسلامی نظریاتی ایٹمی صلاحیت کے حامل پاکستان کے لیے اندرونی استحکام، اتحادِ اُمت پر مبنی کردار اور فلسطین و کشمیر پر متفقہ قومی حکمت عملی ناگزیر ہے۔