اسلام اور عصری علوم (حصہ اوّل)

210

امریکا کے دورے کے دوران ٹینیسی اسٹیٹ میں ڈاکٹر شہرام ملک کے ہاں مختلف شعبوں کے ماہرین اور ڈاکٹرحضرات کے ساتھ ایک علمی اور فکری نشست ہوتی ہے، اس میں افادہ واستفادہ ہوتا ہے اور میں اسے اپنے لیے نہایت مفید سمجھتا ہوں۔ مشہور ماہر ِ امراضِ چشم جناب ڈاکٹر خالد اعوان ورجینیا اسٹیٹ میں رہتے ہیں، اُن کا تفاسیر وشروحِ حدیث اور اسلامی علوم کا بڑا گہرا مطالعہ ہے اور امریکا میں رہتے ہوئے عصری علوم اور جدید رجحانات سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ اُن کے ہاں ہر ہفتے مجلس ِ درس منعقد ہوتی ہے، اس میں مختلف شعبوں سے وابستہ اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات شرکت کرتے ہیں۔ اس لیے میں ہمیشہ اُن سے رابطے میں رہتا ہوں اور استفادہ کرتا رہتا ہوں اور بعض معلومات قارئین تک بھی پہنچاتا ہوں۔

ایک عرصے سے ہمارے ہاں دینی ذہن رکھنے والے تعلیم یافتہ اسکالرز کا ایک طبقہ ایک فکر کی ترویج کر رہا ہے اور وہ اپنے موقف کی تائید میں بعض مغربی فلاسفہ اور اہل ِ علم کے حوالے بھی پیش کرتے ہیں، اس فکر کا خلاصہ یہ ہے: ’’تہذیب ِ مغرب یا مغربی طرزِ زندگی کے اجزائے ترکیبی سیکولرازم، لبرل ازم، انڈسٹریل ازم، سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ ہیں‘‘۔ میں اُن کے اخلاص پر شک نہیںکرتا، لیکن اس سے یہ تاثر سامنے آتا ہے: ’’سائنس و ٹیکنالوجی اور سیکولرازم ولبرل ازم لازم وملزوم ہیں‘‘۔ یہ حضرات عصری علوم کے محققین ہیں اور اپنی فکر میں اتنے متصلّب ہیں کہ دین کے میدان میں کام کرنے والے بہت سے حضرات کی فکر اور طرزِ عمل سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔

یہ اسکالر یہ تاثر دیتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی دنیا میں غلبے کی ضمانت نہیں ہے، ورنہ اُن کے بقول امریکا کو افغانستان میں شکست نہ ہوتی‘‘۔ ان کے نزدیک یہ جذبہ ٔ ایمانی اور جذبہ ٔ جہاد کے مقابل سائنس اور ٹیکنالوجی کی شکست ہے، پس ثابت ہوا کہ سائنس و ٹیکنالوجی اور دنیاوی غلبہ لازم وملزوم نہیں ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ڈاکٹر خالد جامعی اور ان کے ہم خیال اسکالر اس فکر کے داعی ہیں، نظریات میں ایسے تفرّدات کے حامل فلسفی خال خال امریکا اور مغرب میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک پولیو اور کورونا ویکسین وغیرہ مہمات کے پیچھے بھی مغرب کی سازش ہے۔ یہ اسلامی بینکنگ یا اسلامی فنانسنگ کی موجودہ صورتوں کو بھی سود ہی کی ایک شکل سمجھتے ہیں، لیکن کوئی متبادل اقتصادی ڈھانچہ فراہم نہیں کرتے۔ اس حقیقت کا ادراک بھی نہیں کرتے کہ ہم نے کوئی انقلاب برپا کیا ہے، نہ ہمارے ہاں کسی انقلاب کے آثار ہیں کہ موجودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر ازسرِ نو خالص اسلامی نظام کی بنیاد رکھی جائے، ہمارے پاس تاحال ایسی قیادت یا ایسے حالات نہیں ہیں۔ ایک جاری نظام کے اندر رہتے ہوئے خیر کے حصول کی گنجائش پیدا کرنا ہماری مجبوری ہے، یقینا اس میں خیر ِ کُل نہیں ہے، لیکن کیا خیر ِ قلیل کو بھی خیرباد کہہ دیا جائے۔ پس اصل الجھن اور پیچیدگی یہی ہے۔ یہ حضرات دستیاب خیر سے استفادہ کرنے والوں کو مصلحت پسند، کم ہمت اور سمجھوتا کرنے والے سمجھتے ہیں۔ ایک صاحب نے ایک صاحب ِ علم کا قول نقل کیا تھا: ’’خیر ِ قلیل کو چھوڑنا بھی شرِّ کثیر ہے‘‘۔

ہمیں شرحِ صدر ہے کہ جمہوریت اپنی جبلّت اور بنیادی ساخت کے اعتبار سے سیکولر ہے، اس میں خیر وشر کا فیصلہ کرنے کے بارے میں اجماعی یا اکثری رائے فیصلہ کُن ہے، صائب رائے کی شرط نہیں ہے، بلکہ وہ اکثری رائے ہی کو درستی ِ فکر وعمل کے ہم معنی سمجھتے ہیں۔ ہماری دستوری ساخت بھی یہی ہے کہ دستیاب حالات میں اسلام کے حوالے سے جو زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے، اس کی کوشش کی جائے، کیونکہ ہم نظام کو بدلنے پر قادر نہیں ہیں۔

ہماری رائے میں افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو میدانِ جنگ میں شکست نہیں ہوئی، بلکہ انہیں اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی ہوئی، انہیں وہاں مزید قبضہ جمائے رکھنا اپنے مقاصد کے لیے مفید نظر نہیں آیا، اسے وسائل کا ضیاع سمجھا، لہٰذا بستر بوریا سمیٹ کر چلے گئے اور ڈھائی ہزار ارب ڈالر کے قریب ان کالگایا ہوا سرمایہ رائیگاں گیا۔ انہوں نے افغانستان کو چلانے کے لیے مقامی فوج اور کٹھ پتلی حکومت کا جو ڈھانچہ تیار کیا تھا، وہ طالبان کی یلغار کے آگے نہ ٹھیر سکا، بلکہ انہیں اپنے مقامی معاونین اور جاسوسی نیٹ ورک سے وابستہ افغانوں کی ایک بڑی تعداد کو امریکا اور یورپ میں مستقل پناہ دینی پڑی۔

دراصل ویت نام یا افغانستان میں امریکی فوجیوں کے پاس جنگ کا ایندھن بننے کے لیے کوئی ایمانی یا اخلاقی جواز تھا، نہ وہ اپنے ملک کی سلامتی یا دفاع کی جنگ لڑ رہے تھے، بلکہ یہ جنگیں توسیع پسندی اور دنیا کو اپنے زیر ِ اثر لانے کے لیے تھیں۔ سو افغانستان سے نکلنے کے باوجود ابھی دنیا کو اُن کے سیاسی اور اقتصادی غلبے سے نَجات نہیں ملی۔ کیا پونے دو ارب مسلمانوں اور ستاون مسلم ممالک کا فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے بے اثر ہونا اس کی واضح دلیل نہیں ہے، کیا عراق، شام اور لبنان شکست وریخت سے دوچار نہیں ہوئے، یمن تقسیم سے دوچار نہیں ہے، سوڈان اور انڈونیشیا کو مجبور کر کے دو مسیحی ممالک قائم نہیں کیے گئے۔ تائیوان چین کے آگے شاید ایک گھنٹہ بھی نہ ٹھیر سکے، لیکن تاحال امریکی سائبان تلے وہ آزاد ملک ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد رشین فیڈریشن نے سنبھالا تو لیا ہے، لیکن ابھی تک اُس کے متوازی سپر پاور بننے کی منزل بہت دور ہے، چنانچہ وہ یوکرین کی جنگ میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ چین اقتصادی اعتبار سے بلاشبہ ترقی کر رہا ہے، لیکن ابھی تک مغربی بالادستی کو چیلنج کرنے کی حیثیت میں نہیں ہے۔ چنانچہ وہ اس کے لیے امریکا اور مغرب سے براہِ راست محاذ آرائی سے بچتے ہوئے کوشاں ہے۔ لیکن چین یا روس کا امریکا اور مغرب سے کوئی تہذیبی تصادم ہے، نہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بیگانہ ہوکر کسی کامیابی کی امید لگائے بیٹھے ہیں، اُن کی ترقی کا زینہ بھی سائنس اور ٹیکنالوجی ہی ہے۔

یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ افغانوں نے ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شکست دی، اگرچہ فتح وشکست کے معیارات بھی اپنے اپنے ہیں۔ لیکن گوریلا جنگ لڑنے والے افغان مجاہدین خود کش یا ریموٹ کنٹرول حملوں میں اسی دستیاب ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے تھے، یہ تو نہیں کہ وہ وظائف پڑھ کر اُن کو زیر کردیتے تھے۔ البتہ یہ ضرور ہے: اگر ظاہری اسباب کے ساتھ قوتِ ایمانی بھی مضبوط ہو تو قرآنِ کریم میں ضرور یہ وعدہ ہے: ’’اگر تم میں بیس صابر ہوں گے تو دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سو (صابر) ہوں گے تو ہزار پر غالب آجائیں گے‘‘، (الانفال: 65) یعنی ایک اور دس کا تناسب ہے تو بھی حق غالب آجاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا: ’’اب اللہ نے تمہارے لیے تخفیف فرمادی ہے اور اُسے معلوم ہے کہ تم میں کمزوری (درآئی) ہے، سو اگر تم میں سو صابر ہوں گے تو دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر ایک ہزار (صابر) ہوں گے تو دوہزار پر غالب آجائیں گے‘‘۔ (الانفال: 66) یعنی پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ضُعف کے پیشِ نظر ایک اور دو کا تناسب مقرر فرمایا۔ لیکن یہ کہیں نہیں ہے کہ دستیاب اسباب سے بھی صَرفِ نظر کر کے مسلمان اندھا دھند میدان میں کود جائیں، بلکہ اس کے برعکس فرمایا: ’’اور (اے مسلمانو!) تم سے جس قدر ہوسکے، اپنے دشمنوں سے مقابلے کے لیے (حربی) طاقت اور (جنگ کے لیے) بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو‘‘، (الانفال: 60) نیز حدیث پاک میں ہے: ’’آپؐ نے تین بار فرمایا: سنو! طاقت پھینکنے (کی صلاحیت) کا نام ہے، (مسلم)

راکٹ ٹیکنالوجی بھی ’’رَمی‘‘ ہی کی انتہائی ترقی یافتہ صورت ہے، اسی ٹیکنالوجی سے اہل ِ مغرب چاند اور دیگر سیاروں تک پہنچے ہیں، خلا میں اُن کے سٹیلائٹ (مصنوعی سیارچے) معلّق ہیں، اُن کا سارا جدید ترین اطلاعاتی وحربی کمپیوٹرائزڈ نظام انہی سیارچوں کے ذریعے کنٹرول ہوتا ہے، دشمن کے کم فاصلے، درمیانی فاصلے اور طویل فاصلے سے داغے جانے والے راکٹوں اور میزائلوں کو فضا میں تحلیل اور بے اثر کرنے کے نظام کوتھاڈ ’’Terminal High Altitude Area Defense‘‘ کا نام دیا گیا ہے، یہ سب کچھ سٹیلائٹ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی اور سیکولرازم لازم وملزوم ہیں، یا توکم علمی کی بنا پر ہے یا تجاہل ِ عارفانہ ہے، البتہ یہ حقیقت مسلّم ہے کہ عہد ِ حاضر میں سائنسی اور فنی علوم کی قیادت اُن ممالک یا اقوام کے ہاتھ میں ہے جو سیکولرازم اور لبرل ازم کے علمبردار ہیں۔(جاری ہے)