ضلع کرم میں فریقین کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے باوجود جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں مزید 5 افراد جاں بحق اور 9 زخمی ہو گئے ہیں، اس طرح جاں بحق افراد کی تعداد 111 ہو گئی ہے، کرم میں فریقین کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا تاہم اس کے باوجود 8 روز سے جھڑپوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے، ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹالو کنج پر جیلامئے کے طرف سے دوبارہ لشکر کشی کی کوشش میں 2 افراد زخمی ہوئے ہیں، پولیس کا بتانا ہے کہ 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں پر حملے میں 52 افراد جاں بحق ہوئے تھے، ضلعی انتظامیہ کے مطابق پشاور پارا چنار مرکزی شاہراہ اور بازار تا حال بند ہیں، مرکزی شاہراہ بند ہونے سے افغانستان کے ساتھ خرلاچی بارڈر پر تجارت بھی بحال نہیں ہو سکی، انٹرنیٹ، موبائل فون سروس مکمل معطل ہے اور تعلیمی ادارے بھی بند ہیں، جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ کا کہنا ہے کہ فائر بندی اور جھڑپیں رکوانے کے لیے اقدامات کئے جا رہے ہیں، ہنگو اورکزئی اور کوہاٹ سے مشران کا جرگہ مذاکرات کے لیے پارا چنار پہنچ رہا ہے، فریقین فائر بندی پر راضی ہیں۔صوبہ خیبر کے ضلع کرم میں بد امنی اور قبائلی تصادم کا حالیہ سلسلہ 21 نومبر کو اس وقت شروع ہوا تھا جب مسافر گاڑیوں کے ایک کاررواں پر جو پولیس کے حفاظتی دستے کے ہمراہ سفر کر رہا تھا، پر فائرنگ کر کے نصف صد سے زائد افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا تھا بڑی تعداد میں زخمی ہونے والے ان کے علاوہ تھے، جاں بحق ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، پولیس کا حفاظتی دستہ پارہ چنار سے پشاور کی مرکزی شاہراہ پر سفر کرنے والے اس مسافر کاررواں کی حفاظت کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکا تھا اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بری طرح ناکام رہا تھا حتیٰ کہ کسی ایک بھی حملہ آور کو گرفتار تک نہیں کیا جا سکا تھا اور تمام حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، تب سے اب تک یہ علاقہ قبائل کے مابین جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔ معلوم نہیں قومی سلامتی اور امن و امان کے ذمہ دار اس ضمن میں اب تک کوئی موثر کردار ادا کرنے اور تصادم کی اس کیفیت کو رکوانے میں ناکام کیوں ہیں؟ … واقفان حال کا یہ بھی بتانا ہے کہ یہ قبائلی تصادم محض آج کی بات نہیں، سالہا سال بلکہ دہائیوں کا قصہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے متعلقہ ادارے اتنے طویل عرصہ سے جاری اس تکلیف دہ صورت حال کی اصلاح میں مطلوبہ کردار ادا کیوں نہیں کر پائے؟ پھر معاملہ کرم تک بھی محدود نہیں بلکہ پورا ملک بد امنی و لاقانونیت کی آماجگاہ اور دہشت گردی و تخریبی سرگرمیوں کی زد میں ہے بلوچستان میں قوم پرستی کے نام پر تخریبی سرگرمیاں عروج پر ہیں، کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خود کش حملہ کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے کہ آج ہی کے اخبار میں بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقہ تربت میں سڑک کنارے سیکیورٹی فورسز بم ڈسپوزل ٹیم کو دیسی ساختہ بم سے نشانہ بنانے کی خبر ہے جس میں ایک اہلکار شہید اور دو کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے، بلوچستان ہی کے علاقہ اوستہ محمد میں پٹرول پمپ پر دستی بم سے حملہ کیا گیا ہے جس سے دو افراد زخمی ہو گئے ہیں ادھر کوئٹہ کے سرینا چوک میں ایک تاجر کے کمسن نو سالہ بیٹے کے اغوا کے خلاف دھرنا دیا گیا تھا، وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے وہاں پہنچ کر بچے مصور کاکڑ کی جلد بازیابی کی یقین دہانی کرائی ہے جس کے بعد دھرنا دس دسمبر تک موخر کر دیا گیا ہے آج ہی کے اخبار میں آئی ایس پی آر کی فراہم کردہ یہ خبر بھی شائع ہوئی ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے علاقہ باغ میں ’’خوارج‘‘ کے خلاف سیکیورٹی فورسز کے ایک آپریشن میں سرغنہ سمیت چار دہشت گرد ہلاک جب کہ تین زخمی ہوئے… پنجاب اور سندھ کے کچہ کے علاقہ میں اغواء، ڈکیتی اور قتل و غارت اور لاقانونیت کی خبریں بھی سالہا سال سے ذرائع ابلاغ کی زینت بن رہی ہیں اس علاقہ میں آپریشن کی اطلاعات بھی بار بار پڑھنے کو ملتی ہیں مگر کیفیت ’مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی‘ سے مختلف نہیں… اس طرح پورا ملک دہشت گردی، تخریب کاری اور لاقانونیت کی لپیٹ میں دکھائی دیتا ہے ۔ ہمارا دشمن اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ہمارے ارباب اقتدار اور قومی سلامتی کے اداروں کے ذمہ داران کی جانب سے ہر بڑے واقعہ کے بعد مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کے اعلانات کئے جاتے ہیں، ایک کے بعد دوسرا آپریشن بھی روبہ عمل لایا جاتا ہے مگر عملاً یہ سب کچھ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتا عوام کو آج تک تحفظ مل پایا ہے نہ تخریب کاری و دہشت گردی کے پے در پے واقعات سے ملک و قوم کی جان چھوٹی ہے۔ جان کی امان ملے تو عرض کریں کہ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں نے اپنے ملکی سالمیت اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے علاوہ دیگر بے شمار جھنجٹ پال رکھے ہیں، وہ اگر ان سے جان چھڑا کر اپنے حقیقی فرائض پر تمام تر توجہ مرکوز کریں تو ہمیں یقین ہے کہ اتنے با صلاحیت ہیں کہ نہ صرف ملک دشمن دہشت گردوں، تخریب کاروں اور لاقانونیت میں مصروف عناصر کی سرکوبی ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے بلکہ وہ ان عناصر کی سرپرستی کرنے والے غیر ملکی دشمنوں کو بھی ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں… شرط صرف یہ ہے کہ سیاست میں ملوث ہونے، سیاستدانوں کے باہمی اختلافات کا حصہ بن کر فارم 47 کی حکومتیں تشکیل دلوانے جیسے نا مناسب اقدامات سے مکمل گریز کیا جائے… عدلیہ سے حسب خواہش فیصلوں کے حصول کی خاطر اس کے معاملات میں مداخلت کی بجائے آزادانہ فیصلوں اور عدل و انصاف کا بول بالاکرنے کا موقع دیا جائے… مختلف انتظامی امور کے ذمہ دار اداروں اور محکموں میں فرائض سنبھالنے کی بجائے سول حکام اور ان کے ماہرین کو اپنی صلاحیتیں آزمانے اور معاملات نمٹانے کے مواقع دیئے جائیں، کیونکہ جس کا کام اسی کو ساجے… ذرائع ابلاغ کو دبائو میں لا کر اپنی ہدایات کے مطابق نشریات پر مجبور کرنے کی بجائے ان اداروں کی حب الوطنی پر اعتماد کیا جائے اور آزاد فضا میں عوام تک حقائق پہنچانے میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں اسی طرح بہت سی دیگر معاشی و معاشرتی ذمہ داریاں جو ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کو نبھانا پڑتی ہیں ان سے اگر نجات حاصل کر لی جائے اور پوری یکسوئی سے ملکی سرحدوں کے دفاع اور ملک دشمن عناصر کے قلع قمع کے لیے تمام تر صلاحیتیں وقف کر دی جائیں تو وہ دن دور نہیں جب ملک دہشت گردی و تخریب کاری اور لاقانونیت سے نجات پاکر استحکام کی راہ پر گامزن ہو جائے گا اور ملک کے دیگر آئینی و قانونی اداروں کی شکایات کا ازالہ بھی ہو سکے گا اور ملک و قوم پورے اعتماد سے ترقی و خوش حالی کی منزل کی جانب گامزن ہو سکیں گے…!!!