اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) امریکا،مغرب کے سنکیا نگ اور کشمیر پر دہرے معیار کی وجہ اقتصادی مفادات ہیں‘چین نے بہترین سفارتی کاری کے ذریعے سنکیانگ پراپنے نکتہ نظر پیش کیا،مودی نے 5اگست کومقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کی توپاکستان اورمسلم ممالک نے کچھ نہیں کیا ‘ملکی معیشت کی مضبوطی اور باہمی اتحادسے ہی دنیا کی توجہ حاصل کی جاسکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات افتخار چودھری، سارک ایس ایم ای کمیٹی کے سابق وائس چیئرمین چودھری سجاد سرور،رکن قومی اسمبلی اور مسلم لیگ (ض) کے سربراہ محمد اعجاز الحق ، قومی کشمیر کمیٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل نسیم خالد ، کالم نگار دانش ور سید جاوید الرحمن ترابی،سفارتی تجزیہ کار اعجاز احمد ، فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے رہنما اسرار الحق مشوانی ،پیپلز ٹریڈرز سیل کے مرکزی رہنما عمران شبیر عباسی اورکل جماعت حریت کانفرنس کے رہنما محمد فاروق رحمانی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مغرب کا سنکیانگ اور کشمیر پر دہرا معیار کیوں ہے؟‘‘ افتخار چودھری نے کہا کہ مغرب سنکیانگ کے مسلمانوں کو اکسا رہا ہے چونکہ مغرب اور امریکا چین کو تنگ کرنا چاہتے ہیں اور مغرب اور امریکا کشمیر کو نظر انداز کر رہے ہیں کیونکہ وہ بھارت کو کوئی دکھ نہیں دینا چاہتے ہیں ویسے اب یہ مسئلے ویسے ہی کمزور ہو رہے ہیں۔ چودھری سجاد سرور نے کہا کہ دنیا کے باہمی تعاون کے اصول بدل گئے ہیں‘ کشمیر کے معاملے پر ہمیں مدد کیوں نہیں مل رہی‘ اگر اس سوال کا جواب چاہیے تو عمران خان حکومت کا گریبان پکڑنا ہوگا‘ جس کے دور میں 5 اگست کا واقعہ ہوا اور یہ حکومت عوام کو منظم نہیں کرسکی اور دوسرا گریبان ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کا پکڑنا ہوگا جنہوں نے اس پر خاموشی اختیار کی‘ آپ خود ہی بتائیے کہ ہم بطور قوم کشمیر کے بارے میں 5 اگست کے فیصلے اور بھارتی اقدام کے خلاف خود اپنے ملک میں کتنے منظم ہوئے؟ اور کتنے سنجیدہ ہوئے‘ ہم خود تو سنجیدہ اور منظم نہیں ہوئے اور سوال ہم کر رہے ہیں کہ مغرب کے رویے کا‘ ہمیں خود بھی اپنے کردار کا جائزہ لینا ہوگا۔ محمد اعجاز الحق نے کہا کہ مغرب کی بات تو بعد میں کرتے ہیں‘ پاکستان کی سیاسی جماعتیں‘ کاروباری طبقہ‘ میڈیا اور ملک کے دیگر بااثر طبقوں میں کون ہے جس نے 5 اگست کے فیصلے کے خلاف قومی سطح پر اپنی اپنی ذمہ داری کے مطابق قوم کی رہنمائی کی ہو‘ اس سلسلے میں ہمیں صرف جماعت اسلامی کی کشمیر بچائو مہم یاد ہے ‘ رہ گئی بات مغرب کی‘ اس نے ہمیشہ اپنے مفاد پر ترجیح دی ہے‘ اس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے‘ سنکیانگ کا معاملہ جہاں تک ہے‘ آپ چین کی سفارت کاری کا جائزہ لیں کہ وہ اس محاذ پر مغرب اور مسلم مالک میں اپنے مفاد کی کس طرح حفاظت کر رہا ہے۔ نسیم خالد نے کہا کہ بھارت نے دنیا سے رائے شماری کا وعدہ کیا تھا جس پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا گیا‘ 5 اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پردفعہ 370 اور 35A کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا‘ بعدازاں اکتوبر 2020ء تک جموں و کشمیر کے اراضی سے متعلق بیشتر مالکانہ حقوق میں ترامیم کیں یا انہیں منسوخ کر دیا گیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کو ان کی اراضی، املاک اور جائداد سے بے دخل کردیا گیا یا ان کی جائداد کو ضبط کرلیا گیا‘ اس سلسلے میں بھارتی عدالتیں بھی مودی سرکار کی بھرپور معاونت کر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل فیڈریشن کی ڈپٹی ڈائریکٹربرائے ایشیا ڈیسک جولیٹ روسلوٹ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کے قانونی فریم ورک میں جو ترامیم کی گئی ہیں، ان سے کشمیریوں کے مالکانہ حقوق پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت اپنے زیرتسلط مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے‘ ان میں کشمیریوں کی املاک کی ضبطگی اور فروخت سمیت ان کی نسل کشی بھی شامل ہے تاکہ مقبوضہ وادی میں کشمیری عوام کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر سکے جس پر وہ گزشتہ76 سال سے عمل پیرا ہے جبکہ اس طویل عرصے کے دوران کشمیری عوام بھی اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کو ان کے حقوق دینے کے بجائے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ہی ختم کر ڈالی تاکہ وادی پر اپنا قبضہ مضبوط کر سکے‘ کتنے مسلم مالک ہیں جنہوں نے مودی سرکار کو یاد دہانی کرائی ہو کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ریاست کا آئینی درجہ اور ضمانت بحال کرے۔ اس محاذ پر ہم اپنا بھی جائزہ لے لیں تو بہتر ہوگا‘ دوسروں سے کیا گلہ شکوہ کرنا ہے‘ آج کی دنیا تو باہمی مفادات کی دنیا ہے‘ چین نے اپنے ہر معاملے میں بہترین سفارت کاری کی ہے اور اپنا تحفظ کیا ہے‘ ابھی حال ہی میں ریاست اترپردیش کے علاقے سنبھل کی جامعہ مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ مندر کی تعمیر کے لیے کرائے جانے والے سروے کے دوران پولیس نے طاقت کا استعمال کیا ہے‘ جامعہ مسجد کے ماضی میں مندر ہونے کا دعویٰ کرکے انتہاپسند ہندوؤں نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ جامعہ مسجد کو مغل دور میں ایک مندر کو گرا کر تعمیر کیا گیا تھا‘ مسجد سے ملنے والے نوادرات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے جس پر مسجد کمیٹی نے کسی بھی ایسی چیز کے ملنے کو جھوٹ اور سازش قرار دیا لیکن مسلم ممالک میں کون بولا ہے؟ انسانی حقوق کے علمبردار عالمی اداروں‘ تنظیموں اور اقوام متحدہ کو بھارت میں انسانی حقوق کی یہ پامالی کیوں نظر نہیں آرہی‘ ان کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے ہی بھارت بدمست ہاتھی کی طرح بپھرا ہوا ہے‘ ایسا کون سا عالمی قانون ہے جس کی بھارت نے خلاف ورزی نہ کی ہو۔ جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ بھارت دنیا کو غلط اور گمراہ کن معلومات دے رہا ہے اور ہم اس کا توڑ نہیں کر رہے ہیں‘ آج کی دنیا میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عالمی صحت کی کی بات کی جاتی ہے‘ ہمیں ایک ’’عزم استحکام‘‘ کشمیر کے لیے بھارت کے خلاف بھی کرنا ہوگا بھارت کے انتہا پسندانہ نظریے کی وجہ سے بیرون ملک بالخصوص امریکا‘ برطانیہ اور کینیڈا میں بھی اقلیتیں محفوظ نہیں جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کا ظلم بھی ہندوتوا نظریے اور پالیسی کا تسلسل ہے‘ مسئلہ جموں و کشمیر کا یو این او قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ناگزیر ہے‘ لیکن ہم نے کشمیر پر کمزوری دکھائی ہے اور دنیا سے توقع ہے کہ ہماری مدد کرے۔ اعجاز احمد نے کہا کہ پاکستان کو اپنے قیام کے وقت سے ہی بھارت کی جانب سے اپنی سلامتی کے لیے خطرات لاحق ہیں جس نے پاکستان کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو ابھی تک خلوص دل سے قبول نہیں کیا ہے چنانچہ پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنا بھارتی ایجنڈے کا اہم حصہ ہے‘ وہ پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کا ارتکاب بھی کرتا رہتا ہے‘ اس نے پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کے لیے اپنے نیٹ ورک کا جال پھیلایا اور ’’را‘‘ کے ایجنٹ اور تربیت یافتہ دہشت گردوں کے علاوہ پاکستان کے اندر موجود اپنے آلہ کار عناصر کو بھی پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ اس میں کوئی 2 رائے نہیں کہ مغرب کا رویہ ہمیشہ متنازع رہا ہے لیکن کشمیر کے معاملے پر ابھی خود بھی اپنا جائزہ لینا ہوگا جس طرح چین اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے ہمیں بھی کرنا چاہیے‘ ہم دنیا میں کس طرح مضبوط ہوسکتے ہیں‘ ہم اپنی معیشت مضبوط کریں‘ باہمی اتحاد پیدا کریں‘ سیاسی استحکام ملک میں ہو‘ تو دنیا ہمیں اہمیت دے گی‘ کون نہیں جانتا کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان اور کے پی کے میں دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں‘ جن میں پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور سی پیک پر کام کرنے والے چینی باشندوں کو بطور خاص ٹارگٹ کیا جاتا ہے، ان میں سے 95 فیصد وارداتوں میں بھارت ہی ملوث ہے۔ عمران شبیر عباسی نے کہا کہ دنیا نے امید ظاہر کی ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں امن کی کوششوں کو ترجیح کے طور پر تقویت دے گی، صرف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کافی نہیں، فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہونے اور ان کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر کام کرنا ہوگا۔ کل جماعت حریت کانفرنس کے رہنما محمد فاروق رحمانی نے کہا کہ پوری امت مسلمہ کی جانب آج ہم دیکھ رہے ہیں ہمیں غیر متزلزل سیاسی عزم اور مکمل اتحاد کا مظاہرہ کرنے اور موجودہ صورتحال سے موثر طور پر نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے‘ عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے ذریعے مشرق وسطی کے لیے ایک مشترکہ عرب اسلامی خصوصی ایلچی نامزد کرنے پر بھی زور دیا ہے کشمیر اور غزہ میں مسلسل مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے‘ مسلم ممالک کے سربراہ اس صورتحال میں صرف تقریریں اور مذمتی بیانات ہی جاری کر رہے ہیں جن کا کسی پر بھی کوئی اثر نہیں ہو رہا مسلم امہ کو اب عملیت پسندی سے کام لینا ہو گا۔