خواتین اکثر یہ سوال کرتی ہیں کہ ہمارے گھر والے ہمیں دینی سرگرمیوں سے روکتے ہیں، ایسے میں ہم کیا کریں؟
گھروں میں روک ٹوک کا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ بہت سے گھر والے اپنے گھر کی خواتین کو بہت سی چیزوں سے روکتے ہیں، کچھ میکے جانے سے روکتے ہیں، کچھ اعلی تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہیں، کچھ ملازمت کرنے سے روکتے ہیں، کچھ مختلف تقریبات میں شریک ہونے اور مختلف سرگرمیاں انجام سے روکتے ہیں۔ روکنے والے باپ اور بھائی بھی ہوسکتے ہیں، شوہر بھی، اولاد بھی، اور گھر کی دوسری بزرگ خواتین بھی۔ کچھ عورتیں مان جاتی ہیں اور زیادہ تر لڑکیا ں اور عورتیں اپنی بات پر اڑ جاتی ہیں اور ضد کر کے منوالیتی ہیں۔ اس رد وکد میں کبھی خاندانی مسائل بھی جنم لیتے ہیں، جن میں سے کچھ گمبھیر ہوجاتے ہیں اور بہت سے وقت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں۔
جو خواتین دین کی دعوت، معاشرے کی اصلاح و تربیت اور خاندان کو دینی ڈگر پر چلانے کی کوشش کرتی ہیں، یاکسی دینی تنظیم میں شامل ہوکر دین کے راستے میں سرگرم ہونا چاہتی ہیں، انھیں بھی کبھی کبھی اپنے گھر والوں کی طرف سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی یہ حوالہ دیا جاتا ہے کہ یہ خاندان کی ریت کے خلاف ہے اور کبھی یہ بہانا کیا جاتا ہے کہ اس سے گھر کے کام متاثر ہوتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ نے اس مشکل کا ادراک کیا اور نہایت حوصلہ بخش رہ نمائی کی:
’’عورت کو سب سے بڑی مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب وہ خود راہِ حق کو پاکر اس پر چلنے کے لیے آمادہ ہوجاتی ہے مگر اس کے گھر کے مرد اس کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں۔ یہ فی الواقع ایک بڑی مشکل صورتِ حال ہے جو بہت کچھ پریشانی کی موجب ثابت ہوتی ہے۔ لیکن اس معاملے میں بھی آپ کے لیے انھی خواتین اسلام کا نمونہ قابلِ تقلید ہے جنھوں نے ابتدا میں اس راہِ حق کو اختیار کیا تھا۔ آپ کی پوزیشن خواہ کتنی ہی بے بسی و کمزوری کی ہو، مگر بہ ہر حال اس حد کو نہیں پہنچتی جس حد تک زمانہ جاہلیت کے عرب میں عورتوں کی پوزیشن گری ہوئی تھی۔ اسی طرح آپ میں سے جن کو بھی ایسے مرد عزیزوں سے سابقہ بہ ہر حال بگڑے ہوئے مسلمانوں سے ہے، مگر جن خواتین کا میں ذکر کررہا ہوں ان کا سابقہ تو کفار اور بدترین دشمنانِ اسلام سے تھا۔ اس فرق کے باوجود جو کچھ انھوں نے اپنے دین کے لیے کیا اور جس جرأت و ہمت اور استقلال کے ساتھ اپنے خاندان کی انتہائی مخالفت اور دشمنی کے مقابلے میں حق پرستی کا کمال دکھایا وہ ہمیشہ تمام دنیا کی عورتوں کے لیے ایک بہترین نمونہ رہے گا‘‘۔ (روداد، پنجم)
مولانا مودودیؒ نے مزید فرمایا:
’’خوب سمجھ لیجیے کہ والدین ہوں، یا بھائی بہن، یا شوہر، یا اولاد، کسی کا حق بھی آپ کے اوپر خدا اور رسول سے بڑھ کر یا ان کے برابر نہیں ہے۔ کوئی بھی اس کا مستحق نہیں ہے کہ اس کو خوش کرنے اور راضی رکھنے کے لیے آپ خدا اور رسول کی نافرمانی کریں۔ کوئی آپ کو خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین سے بڑھ کر یا برابر عزیز نہ ہونا چاہیے اور کسی کا خوف بھی آپ کے دل میں اس حد تک نہ ہونا چاہیے کہ آپ اس سے ڈر کر خدا سے نڈر ہوجائیں۔ یہ کیفیت اگر آپ کے اندر پیدا ہوجائے تو دین کا راستہ آپ کے لیے آسان ہوجائے گا اور کوئی طاقت آپ کو راہِ حق سے نہ روک سکے گی نہ ہٹا سکے گی‘‘۔ (روداد، پنجم)
اس سلسلے میں اسلام پسند خاتون کو درج ذیل نکات پر توجہ دینی چاہیے:
گھر والوں کو اپنا حریف بنانے کے بجائے اپنا ہم خیال اور مددگار بنانے کی مسلسل اور ان تھک کوشش کرتی رہیں۔ اگرحکمت کا خیال رکھا گیا اور اللہ کی توفیق شامل حال رہی تو دیر سویر پورے گھر کا ذہن بدلے گا اور رکاوٹیں دور ہوں گی۔ کوئی ضروری نہیں کہ پورا گھر ہم خیال ہوجائے، اگر ایک دو افراد بھی بات سمجھ گئے تو آپ کی طاقت بہت بڑھ جائے گی اور ان کی حمایت سے آپ کافی کام کرسکیں گی۔
وقت کی بہتر تنظیم کریں، تاکہ گھر کے تمام کام بھی انجام دے سکیں اور دینی سرگرمیوں کے لیے وقت بھی نکل آئے۔ اچھی طرح یاد رکھیں کہ دین کا کام کرنا ہے تو جسم کو زیادہ محنت کا عادی بنانا ہوگا۔ کاموں میں زیادہ چستی دکھانی ہوگی۔ گھر کے کاموں سے چھٹی لے کر دینی کام کرنے کے بجائے گھر کے کام کرتے ہوئے دین کے کام کرنے ہوں گے۔ یقیناً اس سے آپ کے اوپر کاموں کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ صبح بہت جلدی اٹھنا پڑے گا، دن کے آرام میں بھی کٹوتی ہوگی اور رات کو بھی دیر سے سونے کی نوبت آئے گی۔ تھکن کے باوجود گھر والوں کے لیے چہرے پر مسکراہٹ سجانی ہوگی۔ جھنجھلاہٹ اور چڑچڑے پن سے اپنے آپ کو بالکل دور رکھنا ہوگا۔
گھر کے بڑے آپ کا ساتھ دیں یا نہ دیں، آپ دس پندرہ سال کو محیط منصوبہ بنائیں۔ جو بچے اور بچیاں آج پانچ سال سے پندرہ سال کے ہیں، ان کی مسلسل ذہن سازی کریں، خود ان کے پاس بیٹھ کر انھیں دینی تعلیم دیں، ان کا تحریکی ذہن بنائیں، ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کریں، اس طرح آپ دیکھیں گی کہ پانچ، دس اور پندرہ سال کی محنت کے نتیجے میں آپ کے گھر کے اندر دینی فکر اور تحریکی جذبہ رکھنے والوں کی اچھی خاصی ٹیم تیار ہوگی۔ اس وقت پھر آپ کو کوئی نہیں روک سکے گا اور آپ اس جواں سال اور تازہ دم ٹیم کے ساتھ شان دار طریقے سے کام کرسکیں گی۔
آخری اور بہت اہم بات یہ ہے کہ دنیوی مقاصد کی خاطر لڑکیاں ضد کرکے اپنے مطالبے منوالیا کرتی ہیں۔ پھر دینی مقاصد کے لیے آپ ضد کرکے اپنے مطالبے کیوں نہیں منواسکتی ہیں۔ یاد رکھیے آپ منواسکتی ہیں، لیکن اس کے لیے آپ کو اپنے اندر موجود ضد کرنے کی طاقت کو دریافت کرنا ہوگا۔ لوگوں کی ضدیں دنیا کے لیے ہوتی ہیں، آپ کی ضد دین کے لیے ہونی چاہیے۔