کامیاب زندگی
کامیاب زندگی کا کوئی تصور قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خود زندگی کا کوئی تصور قائم کر لیا جائے‘ کیونکہ اسی پر کامیابی کا تصور مبنی ہو سکتا ہے۔ ایک تصورِ حیات کے لحاظ سے ایک زندگی انتہائی کامیاب قرار پاتی ہے‘ تو دوسرے تصور حیات کے لحاظ سے وہی زندگی انتہائی ناکام ٹھہرتی ہے۔ دنیا کو ایک چراگاہ یا خوانِ یغما سمجھیے تو وہ شخص بہت کامیاب ہے جو اس تھوڑی سی مہلتِ عمر میں خوب عیش کرلے‘ اور وہ بڑا ہی نامراد ہے جو نفس و جسم کے ابتدائی مطالبات بھی اچھی طرح پورے نہ کر سکے۔ دنیا کو ایک رزم گاہ سمجھیے تو کامیاب آدمی وہ ہے جو اس کش مکش کے میدان میں سب کو روندتا کچلتا آگے بڑھتا چلا جائے‘ یہاں تک کہ اس مقام پر جا پہنچے جہاں اس کے جیتے جی کوئی حریف اس کی آرزوئوں کی تکمیل میں مزاحم ہونے والا نہ رہ جائے اور اس کے برعکس وہ آدمی بالکل ہی ناکام بلکہ نکمّا ہے جو اپنی اغراض کے لیے کسی ایک بندئہ خدا سے بھی چھین جھپٹ نہ کرے اور سفرحیات میںکبھی دو ہمراہیوں کو بھی کہنی مار کر آگے نہ نکلے۔ لیکن اگر آپ کا تصورِ حیات ان تصورات سے مختلف ہو تو کامیابی و ناکامی کے متعلق بھی آپ کا تصور ان سے مختلف ہو جائے گا۔ اتنا مختلف کہ آپ ان لوگوں کو سخت ناکام و نامراد سمجھیں گے جو ان تصورات کے لحاظ سے بڑے کامیاب ہیں‘ اور ایسے لوگوں کو انتہائی کامیاب قرار دیں گے جو ان کے لحاظ سے قطعی ناکام ہیں۔
٭…٭…٭
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کامیابی و ناکامی کا کوئی ایک متعین معیار نہیں ہے جو دنیا بھر میں مسلّم ہو‘ بلکہ مختلف لوگوں کی نگاہ میں اس کے مختلف معیار ہیں اور ان معیاروں کے متعین کرنے میں فیصلہ کن چیز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو‘ اور اس دنیا کو جس میں وہ رہتا ہے‘ اور اس مہلت عمل کو جو اسے یہاں حاصل ہے‘ کیا سمجھتا ہے؟
٭…٭…٭
طولِ کلام سے بچتے ہوئے میں اختصار کے ساتھ یہ بتائوں گا کہ ایک سچے مسلمان کی نگاہ میں فلاح و خسران کا حقیقی معیار کیا ہے۔ یہ معیار اسلام نے پیش کیا ہے اور ہمیشہ سے اہل ایمان اسی کے لحاظ سے رائے قائم کرتے رہے ہیں کہ فائز و کامران کون ہے اور خائب و خاسر کون۔
زندگی کا جو تصور اسلام ہمیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اس دنیا میں آزمایش کے لیے رکھا ہے تاکہ انسان یہاں اس کے دیے ہوئے سروسامان اور اس کی دی ہوئی طاقتوں سے کام لے کر اپنی اصلی قدر وقیمت کا اظہار کرے۔ اس تصور کی رو سے دنیا کوئی چراگاہ یا رزم گاہ نہیں ہے‘ بلکہ ایک امتحان گاہ ہے۔ جس چیز کو ہم اپنی زبان میں عمر کہتے ہیں‘ وہ دراصل وہ وقت ہے جو امتحان کے پرچے کرنے کے لیے ہم کو دیا گیا ہے‘ اور امتحان کے پرچے بے شمار ہیں۔ ماں باپ‘ اولاد‘ بیوی‘ شوہر‘ بھائی بند‘ رشتے دار‘ دوست‘ ہمسائے‘ قوم‘ وطن اور پوری انسانیت جس کے ساتھ طرح طرح کے تعلقات و روابط میں انسان بندھا ہوا ہے‘ ان میں سے ہر ایک امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ اپنی معاش کے سلسلے میں اور جن جن طریقوں سے بھی انسان کام کرتا ہے اور پھر اس کمائی کو جس جس طرح خرچ کرتا ہے‘ یہ سب بھی امتحان ہی کے مختلف پرچے ہیں۔ اسی طرح جتنی قوتیں اور قابلیتیں اللہ نے اس کو دی ہیں‘ جو جو خواہشیں اور میلانات اور جذبات اس میں رکھے ہیں‘ جن جن ذرائع اور وسائل سے کام لینے کی اس کو قدرت عطا کی ہے‘ ان سب کی اصل حیثیت بھی امتحان کے پرچوں ہی کی ہے۔ اور سب سے بڑا پرچہ اس مضمون کا ہے کہ اپنے اس خالق کے ساتھ انسان کیا رویہ اختیار کرتا ہے جس کی دنیا میں وہ رہتا ہے‘ جس کی دی ہوئی قوتوں اور طاقتوں سے وہ کام لیتا ہے‘ اور جس کے بخشے ہوئے سروسامان کو وہ استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر امتحان ہے‘ جس کی لپیٹ میں زندگی کا ہر پہلو آیا ہوا ہے اور ہمہ وقتی امتحان ہے جس کا سلسلہ ہوش سنبھالنے کے وقت سے موت کی آخری ساعت تک جاری رہتا ہے۔
(کامیاب زندگی کا تصور‘ مرتبہ: پروفیسر انوردل‘ ص 23)