فتنوں سے بچنے کے لیے ایک اصول اخوت ہے۔ اس اصول میں دو باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کیسے لوگوں سے تعلق رکھا جائے‘ اور دوسرا یہ کہ کن سے تعلق نہ رکھا جائے اور لاتعلقی برتی جائے۔ سب سے پہلے اہل اللہ کی صحبت اور ان سے تعلق کے لیے ہدایت دی گئی ہے۔ فرمایا:
’’باندھ لو اپنے آپ کو ان کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے ربّ کو صبح اور شام‘ اور جو طالب ہیں اس کے چہرے کے‘‘۔ (سورہ الکہف: 28)
یہاں صبر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور صبر کے معنی عربی زبان میں بنیادی طور پر باندھنے اور تھامنے کے ہیں۔ یہاں یہ لفظ خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے جس کا بعد میں تذکرہ آئے گا۔ فی الحال میں یہاں واصبر کے لیے تعلق کا لفظ استعمال کر رہا ہوں کہ اپنا تعلق تلاش کر کے‘ ڈھونڈ کے‘ ان لوگوں کے ساتھ قائم کرو جو اپنے ربّ کو صبح و شام پکارتے ہیں۔ ربّ کے ساتھ تعلق کے لیے قرآن نے دو لفظ استعمال کیے ہیں‘ ایک لفظ عبادت اور بندگی کا ہے: یعبدون‘ دوسرا لفظ پکارنے اور بلانے کا ہے: یدعون۔ اکثر جگہ ان الفاظ کو ایک دوسرے کی جگہ بدل کر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ گویا عبادت اور دعا ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں اور ان کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے۔
عبادت تو یہ ہے کہ آدمی اپنی پوری شخصیت کے ساتھ‘ شیفتگی اور والہانہ پن کے ساتھ‘ اْس شخصیت کی پرستش کرے جس کو اپنا ربّ مانتا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ آدمی عبادت کے اندر مصروف ہو‘ اور اْس کے باوجود اس کا اپنے ربّ کے ساتھ دعا کا تعلق قائم نہ ہو۔ بہت سارے لوگ آپ کو کہتے نظر آئیں گے کہ ہم اللہ کی محبت میں اتنے فنا ہیں کہ ہم کو اس سے کسی چیزکے مانگنے کی ضرورت نہیں ہے‘ نہ ہم کو دوزخ کی ضرورت ہے نہ جنت کی۔ دراصل وہ دعا کی اہمیت کو نہیں سمجھ پاتے۔ درحقیقت عبادت اور دعا کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ حدیث میں ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے‘ یہ فی الواقع اللہ کو پکارنا ہے۔ دعا کے لفظ کے اندرکیا ایسی بات یا تعبیر مضمر ہے جس کی وجہ سے قرآن نے اس کو عبادت کا مغز قرار دیا ‘ یہ پہلو غور طلب ہے۔ قرآن و حدیث میں عبادت کے ساتھ ساتھ استعانت کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ (سورہ الفاتحہ: 4) لہٰذا عبادت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استعانت کا‘ مدد مانگنے کا‘ پکارنے کا تعلق قائم ہو۔
اس دور میں‘ جب کہ انسان اپنی سرکشی‘ خودسری اور قوت کے باعث اپنی طاقت‘ سائنس اور ٹکنالوجی پر نازاں ہے‘ ایسے میں ہدایت دی جا رہی ہے کہ اْن لوگوں کو تلاش کر کے‘ اْن کے ساتھ رشتہ قائم کر کے ایک سوسائٹی بنائو جو اپنے ربّ کو پکارتے اور اس کی طرف بلاتے ہیں۔
اگر آپ غور کریں تو بلانے اور پکارنے میں کئی چیزیں پوشیدہ ہیں۔
پہلی چیز یہ ہے کہ آدمی اْسی کو پکارتا اور بلاتا ہے جس کے بارے میں اسے یہ یقین ہو کہ اْس کے پاس وہ قوت اور طاقت ہے کہ میری مدد کر سکتا ہے۔ گویا جب تک اللہ کی قوت اور علم کا یقین نہ ہو‘ اْس وقت تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ دعا کا تعلق قائم نہیں ہو سکتا۔
دوسری چیز یہ کہ وہ سنتا بھی ہے اور جواب بھی دیتا ہے‘ یعنی یہ تعلق کسی ایسی ہستی کے ساتھ نہیں ہے جو بہت اوپر آسمانوں پر بیٹھی ہوئی ہے جس کے آگے آدمی محض سجدہ ریز ہو جائے اور اس کی اطاعت کر لے۔ درحقیقت آدمی اسی کو پکارتا اور بلاتا ہے جس کے بارے میں اس کو قوی یقین اور احساس ہوتا ہے کہ وہ ہستی اْس کی پکار سن رہی ہے۔ جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے: ’’اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں‘‘۔ (سورہ البقرہ: 128) ’’مجھے پکارو‘ میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔ (سورہ المومن: 60) گویا دعا کے اندر یہ عقیدہ اور یقین شامل ہے کہ وہ ذات رحمت کے ساتھ متوجہ ہوتی ہے‘ سنتی ہے اور دعا قبول کرتی ہے۔
اپنی بندگی اور اپنے فقر‘ اپنی فقیری اور اپنی بے کسی و بے بسی کا احساس بھی اس کا ایک پہلو ہے۔ یہ بھی بلانے اور پکارنے کے اندر شامل ہے۔ یہ سب چیزیں مل کر‘ احتیاج اور فقر اور بے بسی اور بندگی کا تعلق اْس ہستی کے ساتھ قائم کرتی ہیں جو قادر بھی ہے اور علیم بھی‘ رحیم بھی ہے اور سمیع و بصیر بھی۔ یہ بندے اور رب کے درمیان دعا کا جو تعلق ہے اس کے ایک خاص پہلو کو بڑی وضاحت کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ پھر فرمایا:’’جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں‘‘۔ (سورہ الکہف: 28)
صبح و شام کے دو معنی ہیں۔ ایک تو وہ جو واقعی صبح اور شام ہوتی ہے۔ اگر ان معنوں میں ہم اس کو لیں گے تو اس کے معنی نماز کے ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ نماز ہی وہ چیز ہے جس کے اندر آدمی صبح و شام وقت مقررہ پر اللہ کو پکارتا ہے۔ اس کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں۔ جس طرح ہم محاورے میں استعمال کرتے ہیں‘ کہ وہ رات دن یہ کام کرتا ہے‘ یا صبح سے لے کر شام تک اِسی کے اندر مصروف رہتا ہے‘ یعنی اس میں ہمیشگی‘ دوام اور ہمیشہ ڈرنے کے معنی بھی شامل ہیں۔ گویا اْن لوگوں کو تلاش کرو جو ایک طرف تو ہر کام میں اللہ کو یاد کرتے ہیں‘ اور پھر جو کام اللہ نے خود عائد کر دیے ہیں‘ یعنی نماز پنجگانہ کے وقت صبح اور شام اللہ کو یاد کرتے اور پکارتے ہیں۔ نیز ان لوگوں کو بھی تلاش کیا جائے جن کا اپنے رب کے ساتھ تعلق اس طرح قائم ہوتا ہے کہ ہر لمحے اْن کو اس کی قدرت کا احساس‘ اور اْس کی نسبت اپنی فقیری اور محتاجی کا احساس رہتا ہے۔
’’جو طالب ہیں اس کے چہرے کے‘‘۔ (سورہ الکہف: 28)
یہاں پکارنے کا مقصد اور جو اصل مطلوب ہے اس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ویسے تو ہر چیز اللہ سے ہی سے مانگنا چاہیے اور مانگنے کا حکم ہے۔ یہاں تک کہ ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جوتے کا تسمہ بھی اگر چاہیے تو اللہ سے ہی مانگو۔ درحقیقت سب سے بڑی اور اہم چیز اْس کی نگاہِ توجہ اور اْسی کی رحمت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔ نگاہ اور چہرہ‘ دراصل یہ الفاظ خوشنودی ‘ رحمت اور توجہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ توجہ کا لفظ وجہ سے نکلا ہے‘ جس کے معنی ہیں چہرہ۔ گویا اللہ کے چہرے کی تلاش کے یہ معنی ہوئے کہ اس کی نگاہ رحمت‘ رضا اور خوشنودی مطلوب و مقصود ہو اور مسلسل اسی چیز پر نگاہ جمی رہے‘ اور پھر اللہ کی توجہ بھی شامل حال ہو۔
دراصل یہ ان کی خواہش ہوتی ہے‘ لیکن یہاں پر لفظ ’یریدون‘ استعمال ہوا ہے۔ یریدون کے معنی ارادہ کرنے کے ہیں۔ ارادے کا لفظ خواہش کے لفظ سے کچھ آگے کا ہے۔ چاہنا الگ چیز ہے‘ تلاش الگ‘ اور ارادہ الگ۔ ارادے کے معنی کے اندر عزم اور فیصلہ بھی شامل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلسلۂ تصوف میںصوفیا اس شخص کے لیے جو اْن کے ساتھ چلنے یا اْن کی راہ پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے‘ مرید کا لفظ استعمال کرتے ہیں‘ جو ارادے سے نکلا ہے ‘ یعنی اْس نے اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ وہ اِس راستے پر چلے گا۔ گویا ان کی زندگی کا مقصود اور اْن کی توجہات کا مرکز یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو تلاش کریں‘ اْس کی رضا تلاش کریں‘ اْس کو اپنی طرف متوجہ کریں اور صبح و شام ہر وقت اس کو یاد رکھیں۔ اْس کے ساتھ اپنی نسبت قائم کریں‘ جو اْن کا رب‘ مالک اور پرورش کرنے والا ہے۔
صبر کا مفہوم: قرآن نے ان آیات میں تعلق کے لیے جو لفظ استعمال کیاہے‘ وہ صبر ہے۔ یہ بڑا عجیب لفظ ہے‘ اور بڑے عجیب سیاق و سباق کے اندر آیا ہے۔ عربی زبان میں ربط کا لفظ بھی مستعمل ہے‘ اور محبت کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے کہ محبت کرو‘ لیکن یہاں صبر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ میرے خیال میں اس کے اندر بھی ایک خاص معانی پنہاں ہیں‘ اور وہ یہ ہیں کہ دراصل تعلق تو ہے ہی یہ کہ ایک انسان دوسرے انسان کا ہاتھ تھامے اور اپنے رب کی رضا کی تلاش کی راہ پر چلے۔ لیکن اس تعلق کے لیے عزم و استقلال کی ضرورت ہے۔ یہ ایسا تعلق ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک فرد بہت سارے صدمات اور خطرات سے دوچار ہوتا ہے۔ اگر آدمی اس بات کے لیے تیار نہ ہو کہ صبر بھی کرے گا تو محبت اور اخوت کا تعلق قائم نہیں رہ سکتا۔ دو انسان جب مل کر ساتھ چلیں گے تو ایسی باتوں کا پیش آنا جو ناگوار خاطر ہوں لازمی ہے۔ اس لیے حدیث نبویؐ میں اس آدمی کی تعریف کی گئی ہے کہ جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے‘ اور اگر اس میں اْس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے۔ میری رائے میں قرآن نے یہاں پر صبر کا لفظ اس تعلق‘ اس تعلق کی مضبوطی اور استحکام اور اس راہ میں جو ناگوار چیزیں پیش آنے والی ہیں‘ اْن کے مقابلے میں صبر کے ساتھ قائم رہنا‘ ان سب معنوں میں استعمال کیا ہے۔
ایک طرف تو یہ فرمایا گیا کہ اپنا تعلق اخلاص کے ساتھ ایسے لوگوں کے ساتھ باندھو۔ یہ بات اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اکیلا اس کا تصور نہیں کر سکتا کہ وہ فتنوں کے طوفان کے اندر راہ حق پر کھڑا رہ سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو دوسرے انسانوں کی مدد اور حمایت حاصل ہو۔ یہ انسان کی فطرت کا خاصہ ہے کہ جب ایک سے ایک مل کر دو انسان ہو جاتے ہیں‘ تو مخالف قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اور اپنے کام کی ترقی اور نشوونما کے لیے بھی‘ اْن میں سے ہر ایک کی قوت کے اندر بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اِسی کو بعض لوگوں نے یہاں تک کہا کہ انسان اجتماعی حیوان ہے‘ وہ اکیلا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ تو الگ الگ فلسفے ہیں‘ ہمیں ان میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے اور ہمارا تجربہ بھی ہے‘ اور اس پر فطرت بھی گواہ ہے کہ جب بھی انسان مل کر ایک راستے پر چلتے ہیں یا منزل کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں اور تعلق کو باندھتے ہیں‘ تو وہ مثبت طور پر بھی اور منفی طور پر بھی اپنے ارتقا‘ تربیت اور تزکیہ کے لیے بھی اور ان فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی‘ لازماً اْن کی قوت کے اندر بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد فرمایا گیا ہے:
’’اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو‘‘۔ (سورہ الکہف: 28)
یعنی تمھاری آنکھیں اْن سے الگ ہٹ کر اِدھر اْدھر نہ دوڑیں۔ دراصل جب آدمی فتنے کے ماحول کے اندر گھرا ہوا ہو‘ جہاں راہ حق پر چلنے والے اور حق کے راہی بہت تھوڑے ہوں‘ وہاں ہر وہ آدمی بڑا قیمتی ہے جو ہاتھ میں ہاتھ دے کراس راہ پر آگے بڑھے‘ جو اپنے رب کی رضا تلاش کر رہا ہو‘ جو اس کو صبح و شام تلاش کرتا ہو۔ اس کی قدر وقیمت کا احساس اتنا ہونا چاہیے کہ آدمی کی نگاہ نہ پھسلے‘ نہ بہکے‘ نہ اٹکے‘ بلکہ انھی افراد کے اندر رہے‘ خواہ ان کا حلیہ اور لباس کیسا ہی ہو‘ اْن کی معاشرت کیسی ہو‘ اور دنیاوی مرتبہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی نگاہیں ان پر جم جائیں کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ یہ میرے رفیق‘ دوست اور ساتھی ہیں۔ یہ میرے مددگار ہیں‘ اور مجھے اپنے آپ کو انھی کے ساتھ باندھ کر رکھنا ہے۔ اکیلا آدمی تربیت‘ دعوت حق اور جہاد کے معرکے کو اس کے بغیر سر نہیں کر سکتا۔