پاکستانی حکمرانوں نے ریاست کو کب ماں جیسی بنایا؟

435

پاک فوج کے سربراہ سید حافظ جنرل عاصم منیر نے کراچی میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مجھے پاکستان کے روشن مستقبل پر کامل یقین ہے۔ ایک سال پہلے چھائے مایوسی کے بادل چھٹ چکے ہیں آج معیشت کے تمام اشاریے مثبت ہیں۔ اگلے برس تک ان شاء اللہ مزید بہتر ہوں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ مایوسی اور ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والے کہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مایوسی مسلمان کے لیے حرام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ماں کی طرح ہے اور اس کی قدر لیبیا، عراق اور فلسطین کے عوام سے پوچھنی چاہیے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 21 نومبر 2024)

بلاشبہ ریاست کو ماں کی طرح ہونا چاہیے۔ عہد نبوی کیا عہد خلاف راشدہ میں بھی ریاست ماں کی طرح تھی۔ اس ماں کو انسانوں ہی کی نہیں جانوروں تک کی فکر تھی۔ چنانچہ سیدنا عمرؓ نے ایک بار فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے ہلاک ہوگیا تو مجھ سے اس کی بازپرس ہوگی۔ سیدنا عمرؓ کے دور میں شیرخوار بچوں تک کا وظیفہ مقرر تھا۔ خیر یہ تو عہد فاروقی تھا جس پر اللہ کی رحمت کا سایہ تھا لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ انسانی ساختہ نظریات پر قائم ہونے والی ریاستوں نے بھی اپنے عوام کو مادی فلاح سے ہمکنار کیا ہے۔ سوویت یونین ایک سوشلسٹ ریاست تھی مگر اس ریاست میں اسکول سے یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم مفت تھی۔ ریاست میں کوئی شخص بھی بیمار پڑتا تھا تو ریاست اس کا مفت علاج کرتی تھی۔ ریاست میں خواندگی کی شرح سو فی صد تھی۔ ریاست کا کوئی شہری بیروزگار نہیں تھا۔ ریاست کے لینن اور اسٹالن جیسے جابر حکمرانوں نے سوویت یونین کو دوسری سپر پاور بنادیا تھا۔ چین بھی ایک کمیونسٹ ریاست ہے مگر چین کے کمیونسٹ حکمرانوں نے چین کو دوسری بڑی معاشی طاقت بنادیا ہے۔ چین کے حکمرانوں نے صرف چالیس سال میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ چین میں شرح خواندگی سو فی صد ہے۔ چین میں کوئی شخص نہ آج سے چالیس سال پہلے بیروزگار تھا نہ آج بیروزگار ہے۔ دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام رکھنے والی ریاستیں بھی موجود ہیں۔ ان میں سے بیش تر ریاستیں ترقی یافتہ ہیں۔ یہ ریاستیں پوری دنیا کے لیے ’’ماڈل‘‘ بنی ہوئی ہیں۔ ان ریاستوں کے حکمران اپنے عوام کے ’’خادم‘‘ ہیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اسلامی ریاست ہے۔ چنانچہ اسے پہلے دن سے اپنے عوام کے لیے ’’ماں جیسا‘‘ ہونا چاہیے تھا مگر پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ ’’سیاسی کتوں‘‘ نے ریاست پاکستان کو ڈائن کی طرح بنادیا ہے۔ اس کام کی ابتدا 1954ء سے ہوگئی تھی۔ 1954ء میں جنرل ایوب فوج کے سربراہ تھے۔ اس حیثیت میں وہ ریاست کے ’’ادنیٰ خادم‘‘ تھے مگر وہ ریاست کے باپ بن کر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے 1954ء میں امریکی حکمرانوں سے خفیہ خط و کتابت شروع کردی۔ انہوں نے امریکی حکمرانوں کو باور کرایا کہ پاکستان کے سیاستدان نااہل ہیں اور وہ پاکستان کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب نے ایک خط میں امریکی حکمرانوں سے کہا کہ فوج سیاست دانوں کو پاکستان تباہ نہیں کرنے دے گی۔ دیکھا جائے تو جنرل ایوب کو یہ باتیں کہنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر ’’سول قیادت‘‘ نے بنایا تھا۔ اس سلسلے میں کسی جرنیل یا کسی فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ پاکستان میں غاصب جرنیلوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ قائداعظم سول معاملات میں جرنیلوں کی مداخلت کو سخت ناپسند کرتے تھے مگر جنرل ایوب امریکا کی پشت پناہی سے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ انہوں نے ملک کے آئین کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیا۔ انہوں نے سیٹو اور سینٹو کے امریکی معاہدوں پر دستخط کرکے پاکستان کو امریکا کی کالونی بنادیا۔ انہوں نے بڈھ بیر کے مقام پر امریکا کو ایک ہوائی اڈہ فراہم کردیا۔ اس ہوائی اڈے سے امریکا سوویت یونین کی جاسوسی کیا کرتا تھا۔ جنرل ایوب پاکستان کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کی چاٹ لگائی۔ جنرل ایوب نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی۔ انہوں نے آزاد پریس کا گلا گھونٹ دیا۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح قائداعظم کی بہن تھیں مگر جنرل ایوب نے قومی اخبارات میں آدھے صفحے کے اشتہارات شائع کرائے۔ ان اشتہارات میں فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرکے جنرل ایوب ریاست پاکستان کو ’’ماں جیسی‘‘ بنا رہے تھے یا اسے ’’ڈائن جیسی‘‘ ریاست کا رنگ روپ عطا کررہے تھے؟

جنرل ایوب کی جگہ جنرل یحییٰ آگئے۔ انہوں نے بھی ماں جیسی ریاست کو ڈائن بنانے کا عمل جاری رکھا۔ انہوں نے 1970ء میں اپنی نگرانی میں انتخابات کرائے۔ انتخابات میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن کر ابھری۔ اس مرحلے پر اگر ریاست ماں جیسی ہوتی تو وہ شیخ مجیب کی اکثریت کے آگے سر تسلیم خم کرکے اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیتی مگر جنرل یحییٰ نے ماں جیسی ریاست کو ڈائن جیسا کردار ادا کرنے پر مجبور کردیا۔ چنانچہ جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے برعکس جنرل یحییٰ نے پاکستان بنانے والے بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ جنرل یحییٰ نے جنرل نیازی کو فوجی آپریشن کی نگرانی سونپی۔ جنرل نیازی کے نزدیک اگر ریاست ماں جیسی ہوتی تو بنگالیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے۔ مائیں اپنے بچوں پر ہر حال میں محبت اور شفقت کے پھول نچھاور کرتی ہیں۔ مگر جنرل نیازی نے بنگالیوں کے لیے ریاست کو ڈائن جیسا بنادیا۔ انہوں نے بنگالیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہم تمہاری عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ پاکستانی جرنیلوں نے مشرقی پاکستان کے بحران میں فوج کی مدد کے لیے البدر اور الشمس کے نام سے نوجوانوں کی تنظیمیں بنائیں۔ ان تنظیموں کے نوجوانوں نے فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔ جرنیلوں کے نزدیک اگر ریاست ماں کی طرح ہوتی تو جرنیل ہر حال میں البدر اور الشمس کے لوگوں کا تحفظ کرتے مگر جب سقوط ڈھاکا ہوا تو جرنیلوں نے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کے لیے ریاست کو ماں کے بجائے ڈائن بنا کر کھڑا کردیا۔ فوج کے لوگ خود کو جنگی قیدی بن کر محفوظ ہوگئے مگر انہوں نے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں مرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا۔ بہاریوں نے بھی 1970ء کے بحران میں فوج کا ساتھ دیا مگر ان بہاریوں کے لیے ریاست پاکستان آج تک ماں نہیں بن سکی۔

ہمیں ذوالفقار علی بھٹو سے سخت اختلاف ہے اور ہم انہیں پسند نہیں کرتے۔ مگر بھٹو نے کئی اہم کام کیے۔ انہوں نے ملک کو 1973ء کا متفقہ آئین دیا۔ انہوں نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا۔ انہوں نے لاہور میں اسلامی سربراہ اجلاس منعقد کراکے عالم اسلام میں پاکستان کی مرکزیت کو نمایاں کیا۔ وہ 1972ء کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے پی این اے کا مطالبہ تسلیم کرچکے تھے اور وہ قومی اسمبلی کی 33 نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے پر تیار ہوگئے تھے۔ مگر اس مرحلے پر جنرل ضیا الحق ریاست کو ڈائن بنانے کے لیے میدان میں کود پڑے۔ انہوں نے بھٹو کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے بھٹو کو قتل کے ایک جعلی مقدمے میں پھانسی پر لٹکا دیا۔ انہوں نے 1973ء کے آئین کو مذاق بنادیا۔ انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کراکے جمہوریت کا مذاق اڑایا۔ انہوں نے جعلی ریفرنڈم کے ذریعے ووٹ کی حرمت کو پامال کیا، ریاست اگر ماں کی طرح ہوتی تو کیا جنرل ضیا الحق یہ سب کچھ کرسکتے تھے؟

دنیا کے ہر جمہوری ملک میں سیاسی رہنما اپنی قوت نمو سے رہنما اور حکمران بنتے ہیں مگر پاکستان کے جرنیلوں نے ڈائن کا کردار ادا کرتے ہوئے جی ایچ کیو کو جعلی سیاست دان پیدا کرنے والی فیکٹری بنایا ہوا ہے۔ اس فیکٹری نے بھٹو کو پیدا کیا، اس فیکٹری نے نواز شریف کو خلق کیا۔ اس فیکٹری نے الطاف حسین کو الطاف حسین بنایا، اس فیکٹری نے عمران خان کو عمران خان بنا کر کھڑا کیا۔ کیا ماں جیسی ریاست میں یہی سب کچھ ہوتا ہے؟

پاکستان کے جرنیلوں نے پاکستان میں انتخابات کے عمل کو ایک مذاق بنادیا ہے۔ جرنیل پاکستان کے ہر انتخاب کو اغوا کرکے من مانے نتائج حاصل کرتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر خیر سے سید بھی ہیں اور حافظ قرآن بھی۔ اس کے باوجود 2024ء کے انتخابات کو اغوا کرلیا گیا۔ پی ٹی آئی پورے پنجاب میں جیت رہی تھی مگر اسے اکثر مقامات پر ہرا دیا گیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم چوتھے اور پانچویں نمبر پر تھی مگر اسے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی پر فوقیت دے کر نمبر ون پارٹی بنادیا گیا۔ اس سے پہلے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری تھی اور حافظ نعیم الرحمن کراچی کے میئر بننے والے تھے مگر ایجنسیوں نے گندا کھیل کھیل کر مرتضیٰ وہاب اور پیپلز پارٹی کو کراچی پر مسلط کردیا۔ کیا ماں جیسی ریاستیں ایسا ہی کرتی ہیں؟

اس وقت ملک کی آبادی 24 کروڑ ہے۔ اس آبادی میں 12 کروڑ لوگ خط ِ غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ ملک میں 2 کروڑ 60 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اعلیٰ تعلیم اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ غریب کیا متوسط طبقے کے لوگ بھی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلا سکتے۔ چنانچہ نوجوانوں کی اکثریت ملک سے باہر جانا چاہتی ہے۔ ہم جنرل عاصم منیر سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا ماں جیسی ریاستوں میں یہی کچھ ہوتا ہے؟