اسلام آباد،لاہور(نمائندگان جسارت،خبر ایجنسیاں)عمران خان اور بشریٰ بی بی سمیت ہزاروں کارکنان کیخلاف دہشت گردی کے مزید مقدمات درج۔پارٹی رہنماؤں کوبانی سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔تفصیلات کے مطابقاسلام آباد میں احتجاج پر بانی سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں اور ہزاروں کارکنان کے خلاف اسلام آباد میں دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مزید8 مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔اسلام آباد میں احتجاج کرنے پر بانی پی ٹی آئی، قیادت اور کارکنان کے خلاف انسداد دہشت گردی، اسمبلی ایکٹ، پولیس پر حملوں، اغوا، کار سرکار میں مداخلت، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ایف آئی آر تھانہ شہزاد ٹاؤن، سہالہ، بنی گالہ، کھنہ، شمس کالونی، ترنول، نون، نیلور میں درج کی گئیں ہیں۔مقدمات میں بانی پی ٹی آئی عمران خان، بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور، سلمان اکرم راجا، شیخ وقاص اکرم اور مقامی قیادت سمیت ہزاروں نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔دوسری جانب
راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے احتجاج پر چوتھا مقدمہ تھانہ صادق آباد میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت درج کر لیا گیا۔ مقدمے میں اقدام قتل، کار سرکار میں مداخلت سمیت تعزیرات پاکستان کی 14 دفعات شامل ہیں۔بانی پی ٹی آئی، علیمہ خان، بشریٰ بی بی، علی امین گنڈا پور، عمر ایوب، حماد اظہر، اسد قیصر، عارف علوی، خورشید خان سمیت متعدد رہنمائوں کو نامزد کیا گیا ہے۔مقدمے کے متن کے مطابق پی ٹی آئی کارکنان نے فیض آباد ناکے پر اشتعال انگیز نعرے بازی کی، ملزمان نے ٹائر جلا کر سڑک بند کی اور راستہ روک لیا جبکہ ملزمان نے ڈنڈوں اور پتھراؤ کرتے ہوئے پولیس پر حملہ کیا۔پرتشدد احتجاج میں کانسٹیبل جنید کی شرٹ پھاڑ کر نوشیروان سے سرکاری موٹرولا سیٹ چھین لیا۔ ملزمان نے ناکے پر پولیس پارٹی پر سیدھی فائرنگ کی اور دو گولیاں سرکاری گاڑی پر لگی۔آنسو گیس کی شیلنگ کے بعد پولیس نے موقع سے 77 پی ٹی آئی کارکنان کو گرفتار کیا، گرفتار ملزمان سے موٹرولا وائرلیس سیٹ، آنسو گیس کے شیل، ڈنڈے، کنچے اور غلیلیں برآمد ہوئیں۔ ملزمان کے زیر استعمال تین گاڑیاں بھی قبضہ میں لے لیں۔ملزمان نے بانی پی ٹی آئی کی سازش مجرمانہ اور ایماں پر خلاف قانون مجمع اکھٹا کیا، پولیس سے مزاحمت کر کے سڑک بند کی اور عوام کا راستہ روک کر شہری زندگی کو مفلوج کیا۔ ملزمان نے عام عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا، ملزمان نے حکومت ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی کر کے عوام میں خوف و ہراس پھیلایا جبکہ ملزمان نے قتل کی نیت سے پولیس پر سیدھی فائرنگ کی۔پی ٹی آئی پرتشدد احتجاج کے الزام پر راولپنڈی میں درج مقدمات کی تعداد 10 ہوگئی ہے۔علاوہ ازیںپی ٹی آئی کے 24 نومبر کو اسلام آباد میں اعلان کردہ احتجاج کے دوران پنجاب کے شہر راولپنڈی کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیے گئے 156 ملزمان کا جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا۔پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران راولپنڈی کے مختلف علاقوں صادق آباد، نیوٹاؤن اور دھمیال سے گرفتار 191 ملزمان کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج امجد علی نے مقدمے کی سماعت کی، دوران سماعت عدالت نے 10 ملزمان کو تھانہ نیوٹاؤن میں درج مقدمے سے ڈسچارج کردیا۔اس کے علاوہ انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 156 ملزمان کا جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا، اس کے علاوہ عدالت نے تھانہ نیو ٹاؤن کے مقدمے میں 69 ملزمان کا 6 روزہ ریمانڈ منظور کیا اور ملزمان کو 4 دسمبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے صادق آباد اور دھمیال سے گرفتار 35 ملزمان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ بھجوادیا۔اس کے علاوہ صادق آباد کی حدود سے گرفتار 77 ملزمان کا 5 یوم کا ریمانڈ منظور کیا اورملزمان کو 3 دسمبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔دوسری جانب پی ٹی آئی رہنماؤں کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی درخواست منظور نہ ہوئی۔پی ٹی آئی جنرل سیکرٹری سلمان اکرم راجا نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے لیے جیل حکام سے رابطہ کیا تاہم انہیں ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔ ایڈووکیٹ فیصل چودھری نے بھی بانی پی ٹی آئی سے فوری ملاقات کرانے کے لیے سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو درخواست کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے پچھلی تاریخ پہ مجھے مطلع کیا کہ انکے ساتھ پھر سے غیر انسانی سلوک کیا گیا۔فیصل چودھری نے کہا کہ اس سے پہلے بھی میرے کلائنٹ کو قومی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قید تنہائی میں رکھا گیا، مجھے بانی پی ٹی آئی کی خیریت کے حوالے سے شدید تشویش ہے، لہذا فوری ملاقات کروائی جائے۔جیل ذرائع کے مطابق ملاقاتیوں کو جواب دیا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی جیل کی تحویل میں نہیں بلکہ راولپنڈی پولیس کی حراست میں ہیں۔ ان سے ملاقات کے خواہاں افراد راولپنڈی پولیس سے رابطہ کریں۔جیل حکام کا کہنا ہے کہ عمران خان جسمانی ریمانڈ پر راولپنڈی پولیس کی حراست میں ہیں اور ان کے سیل کو راولپنڈی تھانہ نیوٹاؤن کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ ان سے ملاقات کرانے یا نہ کرانے کا اختیار جیل انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔