پاکستان میں 70سال سے قابض ٹولہ لسانی و صوبائی تعصبات کا ذمے دار ہے

66

کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری) اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس وقت دوبارہ ایک سوزش نے سر اٹھایا ہے اور ملک کے چاروں صوبوں میں اس قت نہ صرف فرقہ واریت کی لہر دوڑ رہی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر لسانی اور صوبائی بنیادوں پر قوم منقسم نظر آرہی ہے۔ اس غم گیر صورتحال کو دیکھتے ہوئے جسارت نے قارئین کی دلچسپی و معلومات کے لئے ہمیشہ کی طرح مقتدر شخصیات کے سامنے یہ سوال رکھا کہ “اسلامی ریاست ہونے کے باوجود پاکستان لسانی و صوبائی تعصبات کا شکار کیوں ہے؟” ۔ جن شخصیات نے رائے دی ان میں جماعت اسلامی کے وجیہ حسن، نامور اسکالر پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحق منصوری اور تالیف و تحقیق سے وابستہ میر حسین علی امام شامل ہیں۔ امیر جماعت اسلامی ضلع وسطی وجیہ حسن نے کہا کہ پاکستان اگر آج صوبائی اور نسانی تعصبات کا شکار ہے تو اس کی وجہ ہمارے حکمران ٹولے کی (divide and rule) پالیسی ہے اس حکمران ٹولے نے عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا ہے جس کی وجہ سے مجموعی طور پر عوام میں غم و غصہ ہے اس صورتحال میں عوام کا غیض و غضب کا شکارتو وہ حکمران ٹولہ ہونا چاہیے تھا جو کبھی سامنے ا ٓکر اور کبھی درد پردہ اس ملک پر 70 سال سے قابض ہے۔ لیکن اس حکمران ٹولے نے بہت ہوشیاری سے عوامی غیض و غضب کا رخ ان تعصبات کو ہوا دے کر دیگر مظلوم طبقات کی طرف کر دیا ہے ۔ نتیجتاً اب بلوچ مظلوموں کی بات ہوتی ہے تو ظالم پنجاب نظر آتا ہے اردو بولنے والے اپنی محرومیوں کو ذمہ دار سندھی کو سمجھتے ہیں اور اسی طرح دیگر جگہ پر۔ ایسی صورتحال میں سیاست دانوں کو عوام کے حقوق کے اصل غاصبوں کی نشاندہی کرنا چاہیے تھی لیکن ان میں سے بیشتر ہمارے حکمران ٹولے کے ہمنوااور ہم پیالہ بنے ہوئے ہیں۔ صورتحال اب تعصبات سے بڑھ کر علیحدگی کی جانب جاتی نظر آ رہی ہے بلوچستان میں آج علیحدگی کے جذبات اس سطح تک پہنچ گئے ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کے پی کے کے عوام ائیسولیشن کا شکار ہیں۔ انہیں ان کے جمہوری حقوق یعنی پرامن احتجاج سے بھی محروم کر دیا گیا جبکہ خوارج کے نام پر نئی خونریزی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ ایسی صورتحال میں حکمران ٹولے نے حالات کو مزید خراب کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے بلوچستان میں نئے فوجی آپریشن کا اعلان ہو چکا ہے حالانکہ حقیقتاً وہاں گزشتہ 25 ، 30 سال سے آپریشن کبھی رکا ہی نہیں۔ دوسری طرف کے پی کے میں غیر اعلانیہ فوجی آپریشن شروع ہو چکا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق وہاں ڈرونز کے ذریعے بمباری کی جا رہی ہے اور بڑے پیمانے پر سویلین کی اموات ہوئی ہیں پارہ چنار کی بدامنی جو سیکڑوں افراد کی جان لے چکی ہے مستقل جاری ہے اور دوسری طرف کے پی کے کی جانب سے اپنے جمہوری حقوق کے لیے نکلنے والوں پر جس طرح بے دریغ گولیاں برسائی گئی ہیں وہ ناقا بل یقین ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعصبات کی بنیاد پر کی جانے والی عوام کی تقسیم آج پاکستان کی تقسیم پر خاکم بدہن منتج ہو سکتی ہے ۔ ہمارے حکمران ٹولے نے یہ کھیل امریکی ڈکٹیشن پر شروع کیا ہوا ہے جو خطے میں بھارت کی بالادستی کو یقینی بنانے اور پاکستان کی ڈی نیوکلرائزیشن کا خواب دیکھ رہا ہے۔ سابق صدر شعبہ عربی زبان و ادب جامعہ کراچی ، پریذیڈنٹ صفہ انٹرنیشنل آکسفورڈ انگلینڈ پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری نے کہا کہ لسانی اور صوبائی تعصبات کی وجہ ہم سب کی منافقت ہے جس میں سب سے آگے ہمارے سیاستدان ہیں پھر میڈیا اور ہمارے دانشوروں کی نااہلی مرعوبیت اور اور غلامانہ ذہنیت ذمہ دار ہے ۔قائد اعظم نے قرآن مجید کو پاکستان کا دستور قرار دیا تھا مگر ہم نے آج تک مکمل اسلام کو اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ آج تک جزوی اسلام کو مکمل اسلام کہتے اور سمجھتے ہیں جب اسلام نافذ نہیں کیا جائے گا تو غیر اسلامی لسانی اور صوبائی تعصبات اور ظلم وزیادتی کے تمام جرائم ہوں گے۔ جب سود کا ظالمانہ نظام اسلام کے نام پر چلایا جائے گا مظلوم ظالموں کے خلاف ایک دن ضرور اٹھیں گے یہ تعصبات ہماری حقیقی اسلام سے دوری کے سبب ہیں۔میر حسین علی امام نے کہا کہ پاکستان کی تحریک آزادی میں اسلام اور اردو نے اہم کردار ادا کیا‘ مسلم‘ ابتدائمیں کانگریس اور دیگر مسلم جماعتوں میں شامل افراد مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ اردورابطے کی زبان ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ کی زبان ہوئی اور اردو رسائل جرائد نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے شروع میں 4 صوبے مل کر مغربی پاکستان تھا اس لئے لسانیات صوبائیت فروغ نہیں پائی۔ون یونٹ کی وجہ سے یکجہتی تھی۔ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد لسانیات صوبائیت کو فروغ ہوا۔مغربی ٹیکسٹ بورڈ کے بجائے سندھ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے لسانیات صوبائیت کو ہوا دی۔ صوبائیت، لسانیات کے خاتمے کے لیے چاروں صوبوں کے ٹیکسٹ بورڈ ختم کردیے جائیں ۔اردو معاشرتی علوم مطالعہ پاکستان کے نصاب ایک ہوں اور ہر صوبے کی شخصیات اور کلچر کو بیان کیا جائے۔غرض تمام رائے دہندگان نے اس بات کو سب سے زیادہ اہمیت دی کہ صرف اور صرف نظریہ اسلام کے نام پر جو خطہ حاصل کیا گیا اس میں اس کا نظام نافذ ہوئے بغیر ملک میں نہ امن قائم ہوسکتا ہے، نہ ہی بھائی چارہ اور نہ ہی ترقی ممکن ہے۔