وزیراعظم شہباز شریف کو اگر احتجاجی لیڈر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ موصوف کہیں بھی کوئی بڑا اجتماع دیکھ کر بے قابو ہوجاتے ہیں اور قائد عوام کی طرح مائک توڑ دیتے ہیں روسٹرم گرا دیتے ہیں اور پھر جذبات میں وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں کہ حالات کے بدلنے پر ان کو شرمسار ہونا پڑتا ہے۔ عوام شہباز شریف کا وہ تاریخی اجتماع تو کبھی نہیں بھول سکتے جس میں وہ جوش جذبات میں آکر یہ بولتے ہیں کہ اقتدار میں آ کر زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا اور پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ خود اپنی گردن اسی زرداری کے ہاتھ میں دے بیٹھے۔ اب ذرا بھی گردن اِدھر اُدھر کی تو زرداری صاحب انگوٹھے کا پریشر بڑھاتے ہیں اور ان کی گردن ایک دم سیدھی ہو جاتی ہے دراصل ان کی گردن خود ان کے بڑے بھائی نواز شریف نے اپنی گردن بچانے کے لیے زرداری کے ہاتھ میں دی ہے اور خود چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور ہوتا دیکھ کر وزیراعلیٰ پنجاب بننے پر ہی اکتفا کر بیٹھے جی ہاں! نواز شریف ہی وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں۔ مریم بی بی کا تو صرف نام کا استعمال ہو رہا ہے انہیں تو وزارت چلانے کا بھی تجربہ نہیں وہ صرف میڈیا سیل چلانے میں ماہر تسلیم کی جاتی ہیں۔
نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تو بن گئے مگر نظریں وزارت عظمیٰ پر ہی گاڑی ہوئی ہیں پھر انہیں ڈر ہے کہ شہباز شریف کہیں زرداری کے چنگل میں آکر کوئی ایسا عمل نہ کر بیٹھے جو آگے چل کر ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو پھر وہ اپنے چھوٹے بھائی کو قابل بھروسا بھی نہیں سمجھتے چنانچہ انہوں نے پہلے اپنے صمدھی اسحاق ڈار کو ایک غیر آئینی عہدہ تخلیق کر کے نائب وزیراعظم بنا دیا تاکہ وہ شہباز شریف پر قریب سے نظر رکھ سکیں اس کے ساتھ ہی اپنے سب سے وفادار باڈی گارڈ رانا ثنا اللہ کو وزیر اعظم کا سیاسی مشیر بنا کر اپنی مداخلت کا دروازہ کھول لیا اس پر بھی بس نہ چلا تو اپنے بھائی سے لیگی صدارت لے کر خود ہی مسلم لیگ نون کے آصف علی زرداری بن گئے اور یوں پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ مالی معاملات میں وہ مجبور ہیں آئی ایم ایف کے مقرر کردہ وزیر خزانہ کے کہ جس کی منصوبندی کے بغیر وہ آگے چل نہیں سکتے اور یہ فارنر فائنانس منسٹر جو چاہتا ہے شہباز شریف سے کروا لیتا ہے۔
ابھی حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی سہولت پیکیج کا بڑا اعلان کیا ہے یہ بھی یقینا وزیر خزانہ کی ایڈوائس پر ہی کیا ہوگا فرماتے ہیں دسمبر تا فروری اضافی بجلی کے استعمال پر گھریلو صارفین کے لیے فی یونٹ 26 روپے تک کا ریلیف ملے گا اور اس کا اطلاق ملک بھر کے صارفین کے لیے ہوگا کمرشل صارفین اور صنعتی اداروں کو بھی ریلیف دیا جائے گا بجلی کی کمی میں لاگت سے زراعت صنعت کاروبار اور برآمدات کو بڑھانے میں مدد ملے گی اور ملک کی معاشی صورتحال میں آہستہ آہستہ بہتر ہوتی جائے گی۔ وزیراعظم نے تو ایسے اعلان کر دیا کہ ان تین ماہ میں ملک تیس سال آگے چلا جائے گا مگر سردیوں کے خاتمے کے ساتھ ہی حالات پھر گرم ہو جائیں گے۔
یہ سہولت پیکیج کیا ہے؟ وزیر اعظم نے تو اعلان کر دیا کہ اضافی یونٹ پر سہولت دی
جائے گی مگر وزارت توانائی کے پاور ڈویژن کی بھی سن لیجیے ان کا کہنا ہے کہ اس سہولت پیکیج کا اعلان ملک بھر کے صارفین کے لیے ہوگا اعلامیہ کے مطابق گھریلوصارفین کو 11 روپے 42 پیسے سے 26 روپے 07 پیسے فی یونٹ تک ریلیف ملے گا کمرشل صارفین اور صنعتی اداروں کے لیے بھی ایسے ہی پیکیج کا اعلان کردیا گیا ہے ہم یہاں صرف گھریلو صارفین کی بات کرتے ہیں پاور ڈویژن کے اعلامیے کے مطابق ونٹر پیکیج کا اطلاق ’’ریفرینس بینچ مارک‘‘ کے استعمال سے اضافی 25 فی صد یونٹ تک ہوگا۔ بات اب جاکے سمجھ میں آئی کہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کیوں فرماتے ہیں کہ ونٹر پیکیج گھن چکر اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ (بقیہ تمام جماعتوں کے لیڈران نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے) اب یہ ریفرنس بینچ مارک کیا بلا ہے خود وزیراعظم بھی اس سے ناواقف ہوں گے مگر ہمارے ناقص عقل یہ کہتی ہے کہ گزشتہ برس موسم سرما میں جو بھی بجلی خرچ کی جب آپ اس سے زیادہ یعنی فاضل بجلی استعمال کریں گے۔ تو یہ رعایت آپ کو فاضل یونٹ پر حاصل ہوگی وہ بھی تمام فاضل یونٹ پر نہیں صرف 25 فی صد یونٹ پر یہ سہولت حاصل ہو گی ابھی ہم اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ وزیر خزانہ محترم محمد اورنگزیب (اور+انگریز) کا بیان نظر سے گزرا اور سر پھر سے گھوم گیا موصوف فرماتے ہیں سردیوں کا خصوصی بجلی پیکیج تین ماہ کے لیے ہوگا اور یہ پیکیج 200 یونٹس سے زائد استعمال پر بجلی فی یونٹ 26 روپے 07 پیسے ملے گی لیجیے۔ صاحب گل ہی مک گئی وزیراعظم صاحب کہتے ہیں کہ یہ سہولت ملک بھر کے تمام صارفین کو اضافی بجلی کے استعمال پر ملے گی اور وزیر توانائی اویس لغاری کہتے ہیں کہ اضافی یونٹ کے صرف 25 فی صد پر یہ رعایت ملے گی اور اب محترم اور انگریزیب نے بات ہی ختم کر دی 11 روپے 42 پیسے کا تو ذکر ہی نہیں وہ کہتے ہیں 200 سے اوپر استعمال کرنے والوں کو یہ رعایت ملے گی وہ بھی 26 روپے 07 پیسے فی یونٹ کے حساب سے۔ اب رہ گئے 200 یونٹ والے تو وہ تو پہلے ہی تیار رہتے ہیں کہ جیسے ہی 200 سے ایک یونٹ آگے بڑھا تو پھر چھے ماہ کی قید با مشقت بھگتنی ہوگی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پیکیج کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ہمارا ذہن تو یہ کہتا ہے کہ موسم سرما میں جو بجلی فاضل بچ رہی ہے اس کے بھی پیسے بنا لیے جائیں تو بھائی اس کا سادہ سا حل تو یہ ہے کہ آپ موسم سرما میں لوڈ شیڈنگ ہی ختم کر دیں اس طرح آپ کے پاس جو فاضل بجلی بچ رہی ہے وہ بھی استعمال میں آ جائے گی اور مال بھی بن جائے گا مگر موسم سرد ہو یا گرم عوام کو تو بے چین ہی رکھنا ہے ایک چیز اور جو ہماری اس ناقص عقل میں نہیں سما پا رہی کہ جب ہم آئی پی پیز کو بغیر بجلی بنائے اربوں ڈالر دے رہے ہیں تو پھر ان ڈالرز کے بدلے ان سے بجلی لے کر عوام کو کیوں نہیں دیتے اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ آئی پی پیز کو جو بھی رقم بغیر بجلی بنائے مل رہی ہے ان کی یہ سہولت ختم ہو جائے گی اور اپنی کیپسٹی کے حساب سے بجلی بھی بنانی پڑے گی جو کہ حکمرانوں پر بار گزرے گی کیونک آئی پی پیز کے اصل مالک تو یہی حکمران ہیں جب انہیں بغیر بجلی بنائے ڈالرز مل رہے ہیں تو پھر ان کا دماغ خراب ہے کہ بجلی تیار کریں چنانچہ بجلی تو ہے ہی نہیں پیکیج بقول حافظ نعیم الرحمن عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔