بٹپس منظر: فلپائن کے جنوب میں واقع مسلم اکثریتی علاقے، جنہیں بانگسا مورو (Bangsamoro) کے نام سے جانا جاتا ہے، کو ایک طویل جدوجہد اور امن مذاکرات کے بعد 1996ء میں خودمختاری حاصل ہوئی ہے۔ یہ خطہ تاریخی طور پر ایک مسلم اکثریتی علاقہ رہا ہے، لیکن نوآبادیاتی دور اور فلپائن کے ریاستی نظام کے تحت مسلمانوں کے حقوق محدود کر دیے گئے تھے، جس کے باعث کئی دہائیوں تک اس خطے میں مسلح جدوجہد اور کشیدگی جاری رہی۔ بانگسامورو کی اسلامی تاریخ قدیم اور متحرک ہے، جو فلپائن کے جنوبی علاقوں میں اسلام کے ابتدائی نفوذ سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ علاقے آج کے منڈاناؤ اور قریبی جزائر (سولو اور پالوان) پر مشتمل ہیں اور اسلامی تاریخ کے اہم مراکز میں سے ایک ہے۔
اسلام کی آمد: فلپائن میں اسلام کا آغاز 13 ویں صدی میں عرب تاجروں اور صوفیاء کے ذریعے ہوا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں اسلامی تجارتی نیٹ ورک کے فروغ کے ساتھ ہی اسلام فلپائن پہنچا۔ ان تاجروں نے نہ صرف تجارتی تعلقات قائم کیے بلکہ مقامی لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ اپنے حسن اخلاق اور پاکباز کردار سے بھی متاثرکیا۔
سلطنت سولو (14ویں صدی): 1380ء کے قریب، ایک مشہور مبلغ اور صوفی عالم شیخ کریم المخدوم فلپائن پہنچے اور اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا۔ سولو کے علاقے میں انہوں نے پہلی مسجد تعمیر کی، جسے آج بھی ایک اہم تاریخی مقام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بعد ازاں، سلطنت سولو (Sultanate of Sulu) کا قیام عمل میں آیا، جو فلپائن میں پہلی مسلم سلطنت تھی۔ یہ سلطنت 15 ویں صدی میں اپنے عروج پر پہنچی اور اسلامی تعلیمات اور ثقافت کو فروغ دینے کا اہم مرکز بنی۔
سلطنت مگنداناو: 16 ویں صدی میں سلطنت مگنداناو (Sultanate of Maguindanao) قائم ہوئی، جو منڈاناؤ کے علاقے میں اسلامی حکومت کا دوسرا بڑا مرکز تھا۔ اس سلطنت نے علاقے کی سیاسی اور مذہبی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
اسلامی ثقافت اور اثرات: اسلام نے بانگسا مورو میں ایک منفرد ثقافتی شناخت پیدا کی، جس میں شریعت کے قوانین، تعلیم، اور عربی رسم الخط کے استعمال نے اہم کردار ادا کیا۔ مسلم حکمرانوں نے مقامی زبانوں میں اسلامی روایات کو رائج کیا، اور عربی کے ساتھ ملازمت میں مقامی رسم الخط بھی شامل کیا۔
نوآبادیاتی چیلنجز: استعمار اسپین فلپائن کے علاقے میں سولہویں صدی 1521ء میں پہنچا جب پرتگالی نژاد مہم جو فرڈینینڈ میگیلن نے فلپائن کے جزائر کا دورہ کیا۔ یہ یورپیوں کا پہلا باضابطہ رابطہ تھا۔ استعمار اسپین نے فلپائن کو اپنی کالونی بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے، جن میں طاقت، مذہب، اور سیاسی حکمت عملی شامل تھی۔
استعمار اسپین کی آمد اور مسلمانوں کے خلاف مہم: 1521 میں میگیلن نے سیبو جزیرے پر قدم رکھا اور وہاں کے مقامی لوگوں کو عیسائیت میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، وہ مکتن کے سردار لاپو لاپو کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا۔ 1565 میں اسپین نے اپنی باقاعدہ نوآبادیاتی مہم کا آغاز کیا، جس کی قیادت میگوئل لوپیز ڈی لیگازپی نے کی۔ منیلا پر قبضہ 1571 میں ہوا، جس کے بعد فلپائن کو ’’ہسپانوی مشرقی انڈیز‘‘ کا حصہ بنایا گیا۔
مسلمانوں کے خلاف جنگ: ٭ فلپائن کے جنوبی حصے، خاص طور پر منڈاناؤ اور سولو آرکیپیلاگو میں، مسلمانوں نے سخت مزاحمت کی اور اسپین کی پیش قدمی کونہ صرف روک دیا بلکہ پیچھے بھی دھکیل دیا۔ کیونکہ یہ علاقے پہلے سے ہی مضبوط اسلامی سلطنتوں (سلطنت مغوئنڈاناؤ اور سلطنت سولو) کے زیر کنٹرول تھے۔ ٭ اسپین نے عیسائیت کو پھیلانے کے لیے جنوبی فلپائن پر حملے کیے اور اسلامی حکومتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ٭ اسپین نے جنوبی فلپائن کے مسلمانوں کو ’’موروس‘‘ (Moors) کہا، جیسا کہ اندلس میں مسلم حکمرانوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اور انہیں مستقل طور پر ’’موروس وارز‘‘ (Moro Wars) کے ذریعے دبانے کی کوشش کی۔
مسلمانوں کی استعمار اسپین کی خلاف شدید مزاحمت: مغوئنڈاناؤ اور سولو کے حکمرانوں نے اسپین کے خلاف مضبوط دفاعی نظام قائم کیا اور وقفے وقفے سے ہونے والے معاہدے بھی کیے، مسلم حکمرانوں سے ہونے والے یہ معاہدے استعمار اسپین کے لیے بے اثر ثابت ہوئے کیونکہ ہوا یہ کہ ان معاہدوں میں اسپین کی حکمرانی اور بالادستی کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
مسلمانوں کی آزادی سلب، ثقافتی اور مذہبی جبر اور نوآبادیاتی نظام: o اسپین نے عیسائیت کو فلپائن کا غالب مذہب بنانے کے لیے مضبوط پالیسیاں اپنائیں۔ شمالی اور وسطی فلپائن میں زیادہ تر مقامی لوگ عیسائیت قبول کر چکے تھے، لیکن جنوب میں اسپین کو مسلمانوں کی جانب سے شدید ترین مزاحمت سامنا کرنا پڑا۔ اسپین نے اسلامی مدارس کو تباہ کیا اور اسلامی تہذیب و ثقافت کو مٹانے کی مربوط ومنظم کوشش کی۔ o اسپین نے فلپائن کو ایک نوآبادیاتی ریاست میں تبدیل کر دیا، جہاں مقامی حکمرانوں کو ہٹا کر نوآبادیاتی عہدیدار مقرر کیے گئے۔ زمین کی ملکیت کا نظام تبدیل کر دیا گیا، جس سے مسلمانوں کو معاشی طور پر نہ صرف نقصان پہنچا بلکہ وہ اپنی قیمتی زمینوں سے بھی محروم ہوگئے۔ اسپین نے فلپائن کے شمالی اور وسطی حصے پر موثر کنٹرول حاصل کر لیا، لیکن منڈاناؤ اور سولو آرکیپیلاگو میں مجاہدین ِ اسلام کی زبردست مزاحمت نے اسپین کے دانت کھٹے کردیے، اور اس کی ہوا اکھاڑ دی۔ مسلمانوں نے تقریباً تین صدیوں تک اسپین کے خلاف آزادی کی جنگ جاری رکھی۔
اسپین کی فلپائن میں آمد نے نہ صرف مقامی ثقافت بلکہ مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی آزادی پر گہرا اثر ڈالا۔ اسپین کے خلاف زبردست مسلم مزاحمت نے جنوبی فلپائن میں اسلامی تشخص کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا، جو آج ہمیں بانگسامورو کی اسلامی خودمختار حکومت کی شکل میں دنیا کے نقشے پرنمایاں نظر آتا ہے۔ اسپین کی حکمرانی کا خاتمہ 1898 میں ہوا جب فلپائن امریکا کے قبضے میں چلا گیا، لیکن منڈاناؤ اور سولو کے مسلمانوں کو نوآبادیاتی جبر کا سامنا بدستور رہا۔ امریکا کی فلپائن میں نوآبادیاتی حکمرانی 1946ء میں ختم ہوئی اور فلپائن کو امریکا سے آزادی ملی۔ فلپائن کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد، مسلمانوں کے حقوق کو محدود کرنے کی کوششوں نے ان کے لیے مزید چیلنجز پیدا کیے۔
آزادی یا خودمختاری حاصل کرنے کا پس منظر اور حکومت فلپائن کا کردار: 1946ء میں فلپائن کو آزادی ملی، لیکن مسلمانوں کو ریاستی نظام میں شامل کرنے کی معاندانہ کوششوں نے مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کو تقویت دی گئی۔
ماراناو، مگنداناو، اور سولو میں گھناؤنی سازش: یہ علاقے تاریخی طور پر بانگسامورو کے قلب تھے۔ حکومت ِ فلپائن نے طاقت اور سوچی سمجھی اسکیم کے تحت غیر مسلم فلپائنیوں کو یہاں بسانے کے لیے نِت نئے پروگرام شروع کیے جس کی بدولت مقامی مسلمانوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں معاشرتی اور سیاسی کشیدگی پیدا ہوئی۔
مسلح تحریک کا آغاز: 1970 کی دہائی میں، مورو نیشنل لبریشن فرنٹ (MNLF) نے فلپائن کی حکومت کے خلاف مسلح تحریک شروع کی۔ ان کا مقصد مسلمانوں کے لیے ایک خودمختار یا آزاد ریاست کا قیام تھا۔ بعد میں، مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (MILF) نے بھی الگ ہو کراپنی جدوجہد شروع کردی۔ (جاری ہے)